دیوان الضعفاء [1] میں ’ضعفوہ‘ کہا ہے امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے عکرمہ بن ابراہیم کے واسطے سے ایک حدیث بیان کر کے کہا کہ یہ ’صحیح الإسناد‘[2] ہے ۔مگر علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی تردید میں التلخیص میں فرمایا: ’عکرمۃ ضعفوہ‘ ’’عکرمہ کو محدثین نے ضعیف کہاہے۔اور المغنی [3] میں ’ضعفہ النسائی وغیرہ‘ کہہ کر اشارہ کیا ہے کہ تمام محدثین نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک حدیث ذکر کر کے کہا ہے:’ عکرمۃ قد ضعفہ یحیی بن معین وغیرہ من أئمۃ الحدیث ‘[4] ’’کہ عکرمہ کو یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر ائمہ حدیث نے ضعیف کہا ہے۔اور زیرِ بحث روایت کے بارے میں فرمایا ہے: ’ھذا منقطع وعکرمۃ بن إبراہیم ضعیف‘[5] ’’کہ یہ روایت منقطع ہے اور عکرمہ ضعیف ہے۔ علامہ زیلعی رحمۃ اللہ علیہ نے نے نصب الرایہ [6] میں اسی حدیث پر امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ نقد ذکر کر کے اس پر خاموشی اختیار کی ہے۔
جس سے یہ بات نصف النہار کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ یہ روایت منقطع اور عکرمہ بن ابراہیم بہر نوع ضعیف ہے،بلکہ لیس بشیء ،لیس بثقۃ،کی سخت جرح بھی اس پر موجود ہے۔ جو الفاظ مراتب جرح میں چوتھے اور پانچویں مرتبہ میں ہیں جن سے متصف راوی کے بارے میں خود مولانا عثمانی نے ذکر کیا ہے کہ ایسے راوی کی روایت تو استشہاداًبھی قابلِ قبول نہیں۔[7] ہماری اس وضاحت سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حافظ ضیاء کا المختارۃ میں ذکر کرناقطعاً اس کی صحت کی دلیل نہیں کیونکہ یہ روایت منقطع ہونے کے علاوہ عکرمہ بن ابراہیم کی وجہ سے ضعیف بھی ہے۔
البتہ یہاں مناسب ہے کہ عکرمہ کے دفاع میں مولانا عثمانی نے جوکچھ فرمایا ہے اس کے بارے میں بھی کچھ عرض کر دیا جائے۔ چنانچہ انھوں نے حافظ ابنِ قیم رحمۃ اللہ علیہ کی زاد المعاد سے نقل کیا ہے کہ
|