Maktaba Wahhabi

201 - 413
ہے۔ لہٰذا ایسی صورت حال میں ایسا سہارا جس قدر ’’حوصلہ افزا‘‘ ہو سکتا ہے۔ اہلِ علم اسے خوب جانتے ہیں۔ بلکہ مولانا عثمانی نے مسند امام احمد [1] سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی جو حدیث ’إذا تأھل المسافر فی بلد فھو من أھلھاالخ کے الفاظ سے نقل کی اور مجمع الزوائد[2] سے یہ نقل بھی کیا کہ اس میں عکرمۃ بن ابراہیم ضعیف ہے۔ پھر اس کے دفاع میں انھوں نے جو کچھ فرمایا اس میں ایک یہی بات ہے کہ ’’المختارۃ‘‘میں اسے حافظ ضیاء نے نقل کیا ہے۔[3] یہ روایت المختارۃ[4] میں منقول ہے۔ اور اس کے محقق دکتور عبد الملک نے بھی کہا ہے ’اسنادہ ضعیف‘ ’’اس کی سند ضعیف ہے۔‘‘ علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے الجامع الصغیر[5] میں ’من تأھل‘ کے الفاظ سے مسند احمد سے نقل کیا ہے اور اس کے ضعیف ہونے کی علامت ذکر کی ہے۔ حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری[6] میں کہا ہے کہ یہ منقطع ہے اور اس کا راوی ایسا ہے جس سے استدلال نہیں ہو سکتا ۔علامہ المناوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی فیض القدیر[7] میں علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ اور حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ سے اس کی تضعیف نقل کی ہے۔عکرمہ بن ابراہیم کے بارے میں امام یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ ، ابوداود رحمۃ اللہ علیہ نے لیس بشیء، امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے ضعیف اور لیس بثقۃ کہا ہے۔ امام عقیلی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے اس کے حفظ میں اضطراب ہے۔ امام ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے وہ احادیث کو مقلوب اور مراسیل کو مرفوع بیان کرتا تھا اس سے استدلال درست نہیں۔ یعقوب بن سفیان رحمۃ اللہ علیہ اور عمرو بن علی رحمۃ اللہ علیہ نے منکر الحدیث، ابو احمد الحاکم رحمۃ اللہ علیہ نے ’لیس بالقوی‘ البزار رحمۃ اللہ علیہ نے لین الحدیث، ابن الجارود رحمۃ اللہ علیہ اور ابن شاہین رحمۃ اللہ علیہ نے ضعفاء میں ذکر کیا ہے۔ [8] کوئی ایک کلمہ اس کی توثیق میں کتب جرح وتعدیل میں منقول نہیں۔ حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے
Flag Counter