اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کے بعد خود اپنا عقیقہ کیا۔‘‘ اس کے بارے میں حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ عبد اللہ بن المثنی بخاری کا راوی ہے لہٰذا اس حدیث کی سند قوی ہے اگر عبد اللہ بن مثنی میں کلام نہ ہوتا تو یہ حدیث صحیح ہوتی۔ لیکن امام یحییٰ رحمۃ اللہ علیہ نے اسے ’لیس بشیء‘ ،نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے ’لیس بقوی‘ کہا ہے اور ابوداود رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے: ’لا أخرج حدیثہ‘ ’’میں اس کی حدیث نہیں لوں گا۔‘‘ الساجی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے: اس میں ضعف ہے وہ محدثین میں سے نہیں،مناکیر بیان کرتا ہے۔ عقیلی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ اس کی اکثر احادیث میں کسی نے متابعت نہیں کی۔ ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ نے الثقات میں ربما أخطأ کہا ہے۔ جبکہ العجلی اور ترمذی وغیرہ نے ثقہ کہا ہے۔ اس جیسے راوی جب منفرد ہوں تو وہ حجت نہیں۔ حافظ ضیاء نے اس کی ظاہری سند کی وجہ ہی سے اس حدیث کو المختارۃ میں ذکر کیا ہے۔‘‘[1]
ہمارا مقصد یہ ہے کہ مولانا عثمانی بھی اس حقیقت سے بے خبر نہیں کہ ’المختارۃ‘ کی احادیث پر نقد ہوا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ہمارے نزدیک بلکہ اکثر کے نزدیک مختلف فیہ راوی پر جرح مفسر نہ ہو تو تعدیل مقدم ہوتی ہے اور راوی ثقہ ہوتا ہے ایسے راوی کا تفرد بھی مقبول ہے بشرطیکہ اس کی روایت کی جماعت مخالفت نہ کرے اور حافظ ضیاء کے اسلوب سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے راوی کا تفرد حجت ہوتا ہے۔‘‘[2]
گویا مولانا صاحب نے بھی اعتراف کیا ہے حافظ ضیاء ایسے راوی کے تفرد کو حجت مانتے ہیں۔ مگر ہمارا اور اکثر کا یہ موقف نہیں، بلکہ حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے جو حافظ ضیاء پر نقد کیا ہے وہ بھی اس کا مؤید ہے۔ لہٰذا جب حافظ ضیاء کے اصول سے ہی مولانا صاحب متفق نہیں تو محض انھی کے حوالے سے اور علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کے بتلائے ہوئے اصول کے سہارے ضعیف احادیث کو صحیح باور کر انے میں کون سی معقولیت رہ جاتی ہے؟
یہ تو مختلف فیہ راوی ہوا مگر یہاں تومعاملہ باطل، منکر روایات ،ضعیف ،مجہول اور کذاب راویوں کی روایات اور منقطع احادیث کو لانے کا بھی ہے۔ جیسا کہ ہم نے باحوالہ ذکر کیا
|