اس جرح کے برعکس مولانا عثمانی مرحوم نے جو توثیق نقل کی ہے اس میں ایک یہ کہ شعبہ اس سے روایت کرتے ہیں اور وہ اسی سے روایت کرتے ہیں جو ان کے نزدیک ثقہ ہوتا ہے۔ مگر یہ درست نہیں یہ قاعدہ اکثری ہے جیسا کہ پہلے یہ بحث گزر چکی ہے۔ لیکن یہاں یہ بھی دیکھئے کہ امام ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ امام شعبہ نے یزید سے صرف ایک روایت لی ہے جو میمون عن ابن عمر سے ہے اور اس کے الفاظ ہیں: ’من قتل دون مالہ فھو شہید‘ اور انھوں نے اس حدیث کی شہرت کی وجہ سے یزید سے روایت کیا ہے کیونکہ امام شعبہ ضعفاء سے بچتے تھے۔ ان کے الفاظ ہیں:
((وھذا الحدیث عن میمون بن مہران عن ابن عمر من قتل دون مالہ فھو شہید عن میمون، ولشھرۃ ھذا الحدیث رواہ شعبۃ عن أبی فروۃ عن میمون، لأن شعبۃ یتقی الضعفاء)) [1]
لہٰذا امام شعبہ رحمۃ اللہ علیہ کا اس سے روایت لینا قطعاً اس کی تقویت کا باعث نہیں۔ کیونکہ امام شعبہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس لیے اس سے یہ روایت لی ہے کہ یہ دیگر طرق سے مشہور ہے، اور وہ بھی ایک روایت ۔
مولانا صاحب نے یزید کی توثیق میں تہذیب سے امام ابو حاتم رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول ذکر کیا ہے: ’محلہ الصدق یکتب حدیثہ ولا یحتج بہ‘ مگر افسوس کہ ہاتھ کی صفائی کے کرتب نے رنگ دکھلایا اور ’’محلہ الصدق‘‘ کے بعد کا جملہ ’وکان الغالب علیہ الغفلۃ‘ حذف کردیاجس سے یزید کی روایات کی پوزیشن واضح ہوتی تھی کہ ’’اس میں غفلت غالب تھی‘‘ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
’یکتب حدیثہ‘ کے ساتھ اس کی مزید وضاحت ہوتی ہے کہ ایسے راوی کی روایت لکھی جائے گی اگر ثقہ کے مطابق اس کی روایت ہو گی تو اس کی روایت کا اعتبار ہو گا ورنہ
|