Maktaba Wahhabi

181 - 413
نہیں، جیسا کہ خود مولانا صاحب نے تدریب الراوی کے حوالے سے قواعد علوم الحدیث [1] میں نقل کیا ہے۔ انصاف شرط ہے کہ یہ توثیق یزید کی روایت کے قبول ہونے کی دلیل ہو سکتی ہے؟ اسی طرح یزید کی توثیق میں مروان بن معاویہ کا قول کہ وہ اس کے بارے میں ’’یثبت‘‘ کہتے ہیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ وہ ’’مقارب الحدیث ‘‘ہے نیز فرمایا کہ اس کے بیٹے کی اس سے روایات منکر ہیں۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے الجامع[2] میں امام صاحب سے ’لیس بحدیثہ بأس‘کے الفاظ بھی نقل کیے ہیں بلکہ اسی بنیاد پر امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے العلل میں اسے صدوق بھی کہا ہے اور یہ فی الواقع یزید کی توثیق ہے۔ مگر ان کے مقابلے میں امام علی بن مدینی، احمد ،ابن معین، امام ابو داود، نسائی، ابنِ حبان، ابن عدی، ابو زرعہ، ابو حاتم اوریعقوب بن سفیان رحمۃ اللہ علیہم نے اس کی تضعیف کی ہے اور بعض نے جرح بھی سخت کی ہے،لیس بشیء، لیس بثقہ، متروک، منکر الحدیث وغیرہ، اور امام ابن عدی، ابو حاتم اور ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہم کی جرح مفسر ہے۔ محدثین کے نزدیک اصول یہی ہے کہ جرح مفسر تعدیل پر مقدم ہوتی ہے۔ جیسا کہ ان شاء اللہ آئندہ یہ بحث اپنے مقام پر آئے گی۔ یہاں یہ بحث بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے ابواب فضائل القرآن کے آخر میں حدیث [3]وکیع حدثنا أبو فروۃ یزید بن سنان عن أبی المبارک عن صہیب ‘ کی سند سے مرفوعاً نقل کی اور فرمایا ہے اس کی سند قوی نہیں،اس روایت میں وکیع کی مخالفت کی گئی ہے، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے: یزید لابأس بہ ہے مگر اس کا بیٹا محمد اس سے مناکیر بیان کرتا ہے اور محمد بن یزید بن سنان اپنے باپ سے یہ حدیث بیان کرتا ہے سند میں ’مجاہد عن سعید بن المسیب عن صہیب‘ کا اضافہ کرتا ہے اور محمد بن یزید کی کسی نے متابعت نہیں کی اور وہ ضعیف ہے اور ابو المبارک مجہول ہے۔‘‘ یہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے کلام کے تناظر میں اس سند اور روایت پر تبصرہ
Flag Counter