رہے یزید بن سنان تو ان کے بارے میں توثیق کے کلمات آپ نے دیکھ لیے مگر ان کے مقابلے میں جرح کے الفاظ بھی زیر نظر رہیں۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’ضعیف‘ ابن معین رحمۃ اللہ علیہ ’لیس حدیثہ بشيء‘، ابن المدینی رحمۃ اللہ علیہ ’ضعیف الحدیث‘، ابوداود رحمۃ اللہ علیہ ’لیس بشيء‘، نسائی رحمۃ اللہ علیہ ’متروک لیس بثقۃ‘، دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ ’ ضعیف‘، جوزجانی رحمۃ اللہ علیہ ’لین‘ ابوزرعہ رحمۃ اللہ علیہ ’لیس بقوی‘ الازدی رحمۃ اللہ علیہ ’منکر الحدیث‘ ،العقیلی ’لایتابع الحدیث‘ کہتے ہیں۔حاکم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وہ زہری، یحییٰ بن ابی کثیر، ہشام بن عروہ سے بہت سی مناکیر روایت کرتا ہے۔[1] علاوہ ازیں عرض ہے کہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے اسے ’لیس حدیثہ بشيء‘ بھی کہا ہے۔[2] یحییٰ الحمانی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں ہم اس سے روایت لینا حلال نہیں سمجھتے۔[3] ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
((یروی عن الثقات مالایشبہ حدیث الأ ثبات لا یعجبنی الاحتجاج بخبرہ إذا وافق الثقات فکیف إذا انفردبالمعضلات)) [4]
’’وہ ثقات سے ایسی حدیثیں روایت کرتا ہے جو ثقات کی احادیث کے مشابہ نہیں، جب وہ ثقات کے موافق روایت کرے تو مجھے اس کی روایت سے استدلال پسند نہیں چہ جائیکہ جب وہ معضلات ذکر کرنے میں منفرد ہو۔‘‘
اسی طرح امام ابنِ عدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یزید کی یہ حدیث صالح ہے زید بن ابی انیسہ سے ایک نسخہ روایت کرتا ہے جس کی احادیث میں وہ منفرد ہے اور زید کے علاوہ دوسرے شیوخ سے اس کی روایات مسروقہ ہیں اور عموماًاس کی احادیث غیر محفوظ ہیں۔ حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ کا فیصلہ تو آپ معلوم کر آئے ہیں ان سے قبل حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے دیوان الضعفاء[5] اور المغنی[6] میں اس کا ضعیف ہونا ہی نقل کیا ہے۔
|