Maktaba Wahhabi

178 - 413
جرح کے مقابلے میں کوئی کلمہ توثیق ائمہ ناقدین سے مولانا عثمانی تو نقل نہیں کر سکے،البتہ تہذیب سے یہ سہارا مل گیا کہ ’أخرج ابن حبان لہ فی صحیحہ ‘ ’’ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح میں ایک طویل روایت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کے بارے میں نقل کی ہے۔‘‘ بلاشبہ یہ روایت صحیح ابنِ حبان[1] اور موارد الظماٰن[2] میں موجود ہے۔ مگر کتنے المیہ کی بات ہے کہ حضرت موصوف کو تہذیب میں یہ تو نظر آگیا کہ ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح میں اس سے روایت لی ہے،مگر اسی کے متصل بعد حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے جو اس پر تبصرہ فرمایا: کہ ’فیہ نکارۃ‘ اس میں نکارت ہے نہ وہ نظر آیا اورنہ ہی اس کے ساتھ جو انھوں نے ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ کی الضعفاء سے یحییٰ بن یعلی پر جرح نقل کی وہ نظر آئی۔ ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ تو فرماتے ہیں کہ اس کی ہر حال میں روایات سے استدلال نہ کیا جائے اور اس کی تمام روایات سے اجتناب واجب ہے۔ مگر اس کی ایک روایت ’’صحیح‘‘ میں ذکر کرنے سے وہ ’’لابأس بہ‘‘ اور ’’یکتب حدیثہ‘‘ہو گیا امام ابن حبان نے الثقات میں بھی اس کا ذکر نہیں کیا۔ جس کی روایات سے اجتناب واجب قرار دیا ہے۔ اس کے بعد اس کی روایت کو صحیح درج کرنا بجائے خود تساہل ہے چہ جائے کہ اسے راوی کے قابل اعتبار بنانے کا بہانہ بنایا جائے۔ موارد کے حاشیہ ہی میں حافظ ابنِ حجر سے اس کی تضعیف منقول ہے۔ علاوہ ازیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے’’ذاھب الحدیث‘‘ اور ابن معین رحمۃ اللہ علیہ نے’’لیس بشیء‘‘ کہا ہے جو چوتھے اور پانچویں درجہ کی جرح شمار ہوتی ہے۔ جن کے بارے میں خود مولانا صاحب نے فرمایا ہے کہ ایسے راوی کی روایت ’’ساقط لایکتب حدیثہ لا یعتبر بہ ولا یشتشھد[3] ’’ساقط ہوتی ہے نہ اسے لکھا جائے گا نہ اسے اعتباراً واستشہاداً قبول کیا جائے گا۔‘‘ مگر دیکھا آپ نے کہ اس اصول کے بھی برعکس اسے ’’لابأس بہ‘‘ قرار دیا جارہا ہے۔ بے اصولی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے تو میزان[4] میں زیرِ بحث روایت کو یحییٰ کی منکرات میں شمار کیا ہے۔
Flag Counter