والوں کو بھی جواباً یہی کلمہ کہنے کا ذکر ہے اور یہی دراصل مداربحث ہے کہ علامہ ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ نے حنفی مسلک کے برعکس یہ موقف اختیار کیا ہے۔ ’حیعلۃ‘ کے جواب میں ’حوقلۃ‘ کے ساتھ ساتھ’حیعلۃ‘ بھی دوہرانا چاہیے۔ کیونکہ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ وغیرہ کی روایت میں عموم ہے کہ جس طرح مؤذن کہے سننے والا بھی اسی طرح کہے۔ اور حضرت ابو امامہ کی روایت سے اس کی وضاحت ہو جاتی ہے۔ ابو امامہ کی تفصیلی روایت، جو عفیر بن معدان سے ہے، کی تائید کے لیے حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ وغیرہ کی عمومی روایتوں کو علامہ ابن ہمام کی پیروی میں عثمانی صاحب نے پیش تو کردیاہے۔ مگر قابلِ غور بات یہ ہے کہ خود انھوں نے ہی تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی مفصل اور صحیح مسلم کی روایت کو ذکر کر کے فرمایا ہے:
((دلالتہ علی استحباب إجابۃ الأذان باللسان ظاھرۃ، وفیہ دلالۃ علی أن یقال مکان حي علی الصلاۃ وحي علی الفلاح، لاحول ولاقوۃ إلا باللّٰه وھو یفسر حدیث أبی سعید فھو المعتمد)) [1]
’’یہ حدیث اذان کازبان سے جواب دینے کے استحباب پر ظاہر دلیل ہے اس میں یہ دلیل بھی ہے کہ ’’حی علی الصلاۃ‘‘اور’’حی علی الفلاح‘‘ کے جواب میں ’’لا حول ولاقوۃ الا باللہ‘‘ کہنا چاہیے اور یہ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ کی حدیث کی تفسیر کرتی ہے اور یہی تفسیر قابلِ اعتماد ہے۔‘‘
جب مولانا عثمانی حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ کی حدیث کی قابلِ اعتماد تفسیر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی صحیح حدیث کو قرار دیتے ہیں تو بتلائیے اس کے بعد ان کی ساری کارروائی محض حق وکالت کے زمرہ میں نہیں آتی ؟
اس لیے حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ کی روایت کو حضرت ابو امامہ کی ضعیف روایت کی تائید میں پیش کرنا خود ان کے واضح اور قابلِ اعتماد موقف کے خلاف ہے۔ بالخصوص جب کہ حضرت
|