Maktaba Wahhabi

162 - 413
راوی کو لیس بثقۃ، لیس بشیء، منکر الحدیث، لایکتب حدیثہ ، لایشتغل بحدیثہ، مجمع علی ضعفہ کہا گیا ہو کیا اس راوی کی حدیث بھی حسن ہو سکتی ہے؟ امام ابوحاتم رحمۃ اللہ علیہ تو فرمائیں کہ اس کی ’’سلیم عن ابی امامۃ‘‘ سے روایات کی کوئی اصل نہیں اور یہ زیرِ بحث روایت بھی اسی سند سے ہے مگر حضرت مولانا صاحب کے نزدیک پھر بھی وہ راوی حسن اور اس کی روایت بھی حسن ۔ماشاء اللہ ۔ کیا ہی تحقیق کا شاہکار ہے۔ رہا حضرت مولانا صاحب کا یہ اصرار کہ امام ابوداود نے ’صدوق صالح‘ یا ’ثقۃ‘کہا ہے تو یہ بھی مجھ جیسے طالب علم کی سمجھ سے بالاتر ہے۔ کیونکہ امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ نے تو ’’صدوق‘‘ یا ’’ثقہ‘‘ کا لفظ کہا ہی نہیں انھوں نے تو ’’شیخ صالح ضعیف الحدیث‘‘ کہا ہے۔ ممکن ہے کہ حضرت صاحب نے ’’شیخ صالح‘‘ سے ہی ’’صدوق‘‘ و’’ثقہ‘‘ سمجھا ہو۔ مگر یہ بات کسی درجہ میں قابلِ قبول ہو سکتی تھی لیکن ساتھ’’ضعیف الحدیث‘‘ بھی تو ہے جو تفریق کی بجائے ساتھ ہی مذکور ہے اس وضاحت کے باوجود ’’شیخ صالح‘‘ کو ثقہ وصدوق اور اس کی حدیث کو حسن قرار دینا أفتؤمنون ببعض الکتاب وتکفرون ببعض کا مصداق ہے۔ امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ کہیں اس کی حدیث ضعیف ہے۔ مگر حضرت صاحب انھی کے سہارے کہیں حدیث حسن ہے۔ بلکہ اس سے ہماری اس وضاحت کی تصدیق ہوتی ہے جو قبل ازیں حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ ، علامہ سخاوی رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ ابو غدہ رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کر آئے ہیں کہ ’’شیخ صالح‘‘ سے عموماً راوی کا نیک اور پارسا ہونا مراد ہوتا ہے۔ اس سے اس کی حدیث کی قبولیت مراد نہیں ہوتی۔ تبھی تو امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ نے ’’شیخ صالح‘‘ کے ساتھ ہی ’’ضعیف الحدیث‘‘ کہہ کر اس کی حدیث کے بارے میں بتلادیا کہ وہ ہے تو بڑا نیک مگر اس کی حدیث ضعیف ہے۔ مگر اس سیدھی بات کو حضرت صاحب نے اپنے علم وفضل کی بدولت الٹا کر دیا ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہ بھی دیکھئے کہ حضرت عثمانی مرحوم نے عُفَیر بن معدان کی روایت جس میں ’حي علی الصلاۃ، حي علی الفلاح‘ کے جواب میں سننے
Flag Counter