Maktaba Wahhabi

153 - 413
سھل بن معاذ عن أبیہ‘‘ کی سند سے حدیث نقل کی اور اسے’’حسن‘‘ قرار دیا ۔ جبکہ سھل سے یہ روایت زبان نے نہیں ابو مرحوم عبد الرحیم بن میموں نے کی ہے۔ البتہ اس سے متصل قبل باب میں ’’رشد ین بن سعد عن زبان عن سھل بن معاذ‘‘ سے روایت لی اور اسے حسن نہیں بلکہ غریب کہا اور رشدین پر کلام کیا ہے۔ [1]اسی طرح أبواب البروالصلۃ کے تحت باب فی کظم الغیظ میں ایک روایت ابومرحوم عن سھل بن معاذ سے بیان کی اور اسے ’’حسن غریب‘‘ کہا۔[2] یہ بھی زبان سے نہیں ابو مرحوم سے ہے۔ اسی طرح بعض دیگر احادیث بھی ابو مرحوم عن سھل کی سند سے ہیں اور انھوں نے انھیں حسن کہاہے۔[3] زبان عن سھل کی سند سے صرف ایک روایت ہے مگراسے حسن نہیں کہا۔ اور باقی مقامات پر صرف حسن ہے صحیح نہیں۔ اسی طرح ابنِ خزیمۃ[4] میں بھی ایک روایت ’’ابو مرحوم عن سھل‘‘ سے ہے۔ ’’زبان عن سھل‘‘ سے بالکل نہیں۔ البتہ المستدرک میں متعدد مقامات پر ’’زبان عن سھل ‘‘ کی روایات کو صحیح الاسناد کہا گیا ہے۔[5] علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے بعض مقامات پر ان پر تعاقب کیا ہے چنانچہ(1/567)میں ہے زبان لیس بالقوی اور(4/444)میں ہے ’منکر وزبان لم یخرجالہ‘ غور فرمایا آپ نے یہاں تو امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے زبان عن سھل کی روایت کو’صحیح علی شرط الشیخین ولم یخرجاہ‘ کہہ دیا ہے۔ اس لیے جیسے امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کا یہ کھلا تساہل ہے کہ یہ بخاری ومسلم کی شرط پر صحیح ہے تو اسی طرح اس سند کی مرویات کو صحیح الاسناد کہنا بھی تساہل پر ہی مبنی ہے یہی وجہ ہے کہ سب سے پہلے جہاں انھوں نے یہ حکم لگایا ہے حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے اس پر نقد کیا ہے اور اس کے بعد جو خاموشی اختیار کی ہے یہ ان کے اکثری اسلوب کے عین مطابق ہے کہ جب وہ ایک جگہ راوی کی بنیاد پر تعاقب کرتے ہیں تو دوسرے مقام پر خاموش رہتے ہیں کہ پہلے تعاقب ہو چکا اعادہ کی ضرورت نہیں۔ لیکن دوسرے مقام پر جب امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے حد سے تجاوز
Flag Counter