لیس بشيء)) [1]
’’وہ بہت’’منکر الحدیث‘‘ ہے۔ میں نہیں جانتا کہ اس کی حدیث میں تخلیط اس کی وجہ سے ہے یا زبان کی وجہ سے ،دونوں میں سے جس سے بھی تخلیط ہو وہ جواحادیث روایت کرتا ہے ساقط ہیں۔ یہ اشتباہ اس لیے کہ اس کا سھل سے راوی زبان ہے۔اور زبان لیس بشیء ہے۔‘‘
علاہ ازیں امام ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب الثقات کے حوالے سے بھی منقول ہے:
((ذکرہ ابن حبان فی الثقات لکن قال لایعتبرحدیثہ ما کان من روایۃ زبان بن فائد عنہ)) [2]
’’ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ نے اسے الثقات میں ذکر کیا ہے لیکن کہا ہے اس سے جو روایت زبان بن فائد روایت کرے وہ معتبر نہیں۔‘‘
جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ سھل بن معاذ سے اگر زبان بن فائد روایت کریں تو وہ غیر معتبر، منکر اور ساقط الاعتبار ہے۔ یہ روایت بھی چونکہ سھل بن معاذ سے زبان روایت کرتے ہیں اس لیے یہ ساقط الاعتبار ہے۔ مولانا عثمانی نے غالباً اسی حکمت عملی کے طور پر امام ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ کا مکمل کلام نقل نہیں کیا تاکہ کہیں قلعی کھل نہ جائے کہ سھل مختلف فیہ ہے، لیکن جب زبان روایت کریں تو پھر اس کی پوزیشن مختلف ہے۔ حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے بھی فرمایا ہے: ’سھل بن معاذ لابأس بہ إلافی روایات زبان عنہ‘’’کہ سھل لا بأس بہ ہے الاّ یہ کہ زبان اس سے روایت کریں۔‘‘[3]
رہی بات علامہ منذری رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے کی تو اولاً مولانا عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے علامہ منذری رحمۃ اللہ علیہ سے جو سھل کے بارے میں نقل کیا اس سے پہلے’’ضعف‘‘ کا لفظ ہی ذکر نہیں کیا۔ ثانیاً: امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے باب فی کراھیۃ الاحتباء والإمام یخطب کے تحت ’’ابو مرحوم عن
|