مولانا موصوف کی اس بارے میں رائے کیا ہے، وہ تو ہم بعد میں دیکھیں گے۔ یہاں یہ دیکھئے کہ علامہ المنذری رحمۃ اللہ علیہ اپنے اصول کے مطابق جس روایت کو الترغیب میں ’عن‘ سے روایت کرتے ہیں اسی سلسلہ سند کو مختصر سنن ابی داود میں ضعیف قرار دیتے ہیں اصول کیا ہوا؟
مولانا عثمانی نے اس کے برعکس فرمایا ہے کہ سھل کے بارے میں اختلاف ہے۔ ابنِ معین رحمۃ اللہ علیہ ،ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ نے ضعیف اور العجلی رحمۃ اللہ علیہ نے ثقہ کہا ہے جیسا کہ تہذیب[1] میں ہے، اور علامہ منذری رحمۃ اللہ علیہ نے ترغیب میں کہا ہے۔’’ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی حدیث کو حسن اور صحیح بھی کہا ہے، اور ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ اور حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے استدلال کیا ہے۔‘‘ اور زبان بن فائد بھی مختلف فیہ ہے۔ احمد، ابنِ معین ، ابنِ حبان اور الساجی رحمۃ اللہ علیہم نے ضعیف کہا تو ابو حاتم رحمۃ اللہ علیہ نے’’ شیخ صالح‘‘ اور ابن یونس رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے:’کان فاضلاً‘ جیسا کہ تہذیب [2] میں ہے اور منذری رحمۃ اللہ علیہ نے ترغیب کے آخر میں کہا ہے:’ وثقۃ ابو حاتم‘ نیز فرمایا ہے کہ ہم نے اس سند پر طویل کلام کیا ہے تاکہ کوئی بے خبر مختصر السنن میں علامہ المنذری رحمۃ اللہ علیہ کے کلام سے دھوکہ نہ کھا جائے۔ [3]
اسی طرح مولانا موصوف نے ایک اور مقام پر فرمایا ہے کہ زبان بن فائد کے متعلق ابوحاتم رحمۃ اللہ علیہ نے شیخ صالح کہا اور دوسروں نے نقد کیا ہے لہٰذا وہ حسن الحدیث ہے۔[4]
مگر مولانا موصوف کی یہ دفاعی کوشش بحث طلب ہے۔سھل بن معاذ کے بارے میں تہذیب کے حوالے سے امام یحییٰ بن معین اور ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہم سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے سھل کو ضعیف کہا ہے،مگر بات اتنی سی نہیں بلکہ امام ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ کا مکمل کلام یوں ہے:
((منکر الحدیث جداً فلست أدری أوقع التخلیط فی حدیثہ منہ أومن زبان فإن کان من أحدھما فالأخبار التی رواھا ساقطۃ وانما اشتبہ ھذا لأن راویھا عن سھل زبان إلا الشئ بعد الشيء وزبان
|