کرکے اسے ’صحیح علی شرط الشیخین‘کہا تو اس کی پرزور تردید کردی کہ یہ تو منکر ہے اور زبان سے کوئی روایت شیخین نے نہیں لی۔ خلاصہ کلام یہ کہ سھل کی انھی روایات کو امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے حسن کہا ہے اور ابن خزیمہ اس کی وہی روایت لائے ہیں جو ’’زبان بن سھل‘‘ کی سند سے قطعاً نہیں لہٰذا زیرِ بحث سند میں امام منذری رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے یہ کوشش بالکل بے کار اور لا حاصل ہے اور یہ تطویل (جس کا خود عثمانی صاحب نے اظہار فرمایا) ایک بے فائدہ کوشش ہے۔
یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث نمبر(2521) جو’’ ابو مرحوم عن سھل ‘‘ سے ہے کومنکر کہا ہے جیسا کہ اکثر نسخوں میں ہے علامہ المزی رحمۃ اللہ علیہ نے تحفۃ الاشراف[1] میں اور علامہ المنذری رحمۃ اللہ علیہ نے الترغیب [2] میں بھی امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ سے اس کا ’’منکر‘‘ ہونا ہی نقل کیا ہے۔ عثمانی صاحب کو یہ روایت بھی پیش نظر رکھنی چاہیے۔ البتہ بعض نسخوں میں اسے بھی حسن کہا گیا ہے۔ اور اس کا اعتراف بھی عثمانی صاحب نے کیا ہے کہ امام ترمذی اور حاکم متساہل ہیں اس لیے ان کے اصول کے مطابق بھی یہ محض تکلف ہے۔
رہی بات زبان بن فائد کی کہ امام ابو حاتم رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی ’’توثیق‘‘ کی ہے اور علامہ منذری رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے۔ ’’وثقہ ابو حاتم رحمۃ اللہ علیہ ‘‘ اور خود مولانا صاحب نے بھی ان کے الفاظ ’’شیخ صالح‘‘ کو توثیق ہی شمار کیا ہے اور اسی بنا پر اسے حسن الحدیث کہا ہے۔ تو اولاً: گزارش ہے کہ ’’شیخ صالح‘‘ کا لفظ الفاظ توثیق میں قطعاً صریح نہیں۔ ’’شیخ‘‘ یہاں محض بزرگی کے معنی میں ہے یہی وجہ ہے کہ امام ابنِ معین رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ ’’شیخ ضعیف‘‘ کے ہیں۔ اگر یہ لفظ توثیق پر مبنی ہے تو ساتھ ’’ضعیف‘‘ نے وضاحت کر دی کہ یہ کس معنی میں توصیف ہے۔ علامہ سخاوی رحمۃ اللہ علیہ نے فتح المغیث میں اور انھی کے حوالے سے شیخ ابو غدہ رحمۃ اللہ علیہ نے نقل کیا ہے۔
|