احتمال ہے کہ اگر وہ نام ظاہر کرے تو وہ اس کے نزدیک تو ثقہ ہو مگر دوسرے محدثین کے نزدیک ضعیف ہو۔ اس لیے کسی ایسے راوی سے ،جس پر محدثین نے جرح کی ہے محض کسی ثقہ کا اس سے روایت لینا اس کی توثیق کی دلیل کیونکر ہو سکتا ہے۔ اس لیے ابو سفیان جسے محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے اور بعض نے اسے لیس بشئ، متروک، لایکتب حدیثہ کہا ہے اس سے محض ثقات کی روایت اس کی توثیق کی دلیل نہیں۔
اسی طرح امام ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ نے ابو سفیان کی بیان کردہ اسانید کو مستقیم کہا ہے یوں تو نہیں کہ انھوں نے ان کے متون کو بھی مستقیم کہا ہے؟ افسوس کہ یہاں اس فرق کو انھوں نے ملحوظ نہیں رکھا۔ علامہ زیلعی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی نقل کیا ہے۔
((ولین ھو أبا سفیان وقال وقدروی عنہ الثقات، وإنما أنکر علیہ أنہ یأتی فی المتون بأشیاء لایأتی بھا غیرہ، وأسانیدہ مستقیمۃ)) [1]
’’اور ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ نے ابو سفیان کو کمزور کہا ہے چنانچہ فرمایا :کہ اس سے ثقات نے روایت کی اور اس پر انکار اس لیے کیا گیا ہے کہ وہ متون میں ایسی اشیاء لاتا ہے جنھیں اس کے علاوہ اور کوئی نہیں لاتا اور اس کی اسانید مستقیم ہیں۔‘‘
غور فرمائیں اگر ’روی عنہ الثقات‘ اور ’أسانیدہ مستقیمۃ‘ سے راوی کی توثیق ہوتی توعلامہ الزیلعی رحمۃ اللہ علیہ ’ لین ھو أبا سفیان‘‘ (کہ اس یعنی ابن عدی نے ابوسفیان کو کمزور کہا ہے) کہتے ؟ البتہ مولانا صاحب کے نزدیک یہ توثیق کی دلیل ہے۔ سبحان اللہ
مزید برآں عرض ہے کہ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے ابو سفیان کی روایت ذکر کی اور فرمایا: وہ لیس بالقوی ہے میں نے اسے محض بطور شاہد ذکر کیا ہے ’انی اخرجتہ شاھداً‘ اس پر علامہ ماردینی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
|