Maktaba Wahhabi

112 - 413
کہتے ہیں۔‘‘[1] جس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ محدثین کا موقف یہی ہے کہ ثقہ کا کسی راوی سے روایت لینا اس کی تعدیل نہیں،مگرمولانا عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کی اپنی ترجیحات ہیں’’وہ فرماتے ہیں: پہلا قول احوط ہے، دوسرا قوی واوثق ہے لیکن اس کو قرون ثلاثہ کے راویوں سے مختص کرنا چاہیے، تیسرا قول اعدل واوسط ہے اس کی تقییدکی ضرورت نہیں۔‘‘[2] مگرمولانا موصوف کے تلمیذِ رشید نے حواشی میں تیسرے قول ،جس کو اعدل واوسط کہا گیا ہے ،کو اغلبی واکثری قرار دیا ہے۔ وہ اسے کلیۃً قبول نہیں کرتے جیسا کہ پہلے بھی کچھ وضاحت گزر چکی ہے اور الرفع و التکمیل کے حواشی [3] میں بھی اس کو بیان کیا ہے۔ اور یہی بات راجح ہے جس کی تفصیل تطویل کا باعث ہے۔ رہا دوسرا قول جسے انھوں نے ’’اقوی واوثق‘‘ قرار دیا ہے تو اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ راوی مروی عنہ کی توثیق و تجریح سے ہی بے خبر ہو۔ بلکہ بعض نے تو اس کے کذب وضعف کو جانتے ہوئے بھی اس سے روایتیں بیان کی ہیں جیسے امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ نے الحارث سے روایت لی ہے۔ حالانکہ خود انھوں نے اسے کذاب کہا ہے، یا سفیان ثوری نے ثویر بن ابی فاختہ سے روایت لی اور وہ کذابین میں سے ایک تھا۔ یا یزید بن ہارون رحمۃ اللہ علیہ نے ابو روح سے روایت لی اور وہ کذاب تھا۔ جیسا کہ خطیب نے الکفایہ[4] میں تفصیلا لکھا ہے۔ علامہ ابو بکر صیرفی نے تو کہا ہے عدالت سے تو ایک خبر وحالت کا علم ہوتا ہے جبکہ روایت لینے سے اس کاکوئی پتہ نہیں چلتا جیسا کہ علامہ سخاوی رحمۃ اللہ علیہ نے نقل کیا ہے۔[5] اس لیے اکثر محدثین کا ہی قول درست ہے کہ ثقہ کا کسی راوی سے روایت لینا اس کی توثیق کو مستلزم نہیں۔ یہاں یہ بات مزید قابل غور وفکر ہے کہ جب ثقہ راوی یہ کہے کہ میں جس سے روایت کروں وہ ثقہ ہے خواہ اس کا نام نہ بھی لوں،تو کیا اس مبھم راوی سے اس ثقہ کی روایت تعدیل کے لیے کافی ہے؟ ہر گز نہیں جیسا کہ خطیب نے الکفایہ میں ذکر کیا ہے۔ کیونکہ اس میں یہ بھی
Flag Counter