سے پہلے لوگ اپنے حصے سے لطف اندوز ہوئے تھے اور تم بھی اسی طرح دنیا میں مست ومگن رہے جس طرح وہ مست رہے تھے۔ امام ابن القیم رحمہ اللہ رقمطراز ہیں :’’یعنی انھوں نے دنیا اور دنیا کی رنگینیوں سے اپنے حصہ کا لطف اٹھالیا‘ اور﴿خلاق﴾کے معنیٰ مقدر کردہ نصیبہ کے ہیں ‘ اور پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا﴿وَخُضْتُمْ كَالَّذِي خَاضُوا﴾یعنی تم اسی طرح دنیا میں مست ومگن رہے جس طرح وہ مست رہے تھے‘یہ باطل یعنی شبہات میں پڑنا ہے۔چنانچہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں ان چیزوں کی طرف اشارہ فرمایا جن سے دلوں اور دینوں کی بربادی ہوتی ہے،یعنی دنیوی ساز وسامان میں مست و مگن رہنا اور اور باطل میں پڑنا‘ کیونکہ دین کی خرابی یاتو باطل اعتقاد اور اس کے پرچار کرنے یا صحیح علم کے خلاف عمل کرنے سے ہوتی ہے،پہلی چیز بدعت اور اس کے متعلقات ہیں اور دوسری چیز اعمال کی خرابی ‘ چنانچہ پہلی خرابی شبہات کی جانب سے جبکہ دوسری خرابی خواہشات نفس کی جانب سے ہوتی ہے۔[1] |
Book Name | تقویٰ کا نور اور گناہوں کی تاریکیاں |
Writer | ڈاکٹر سعید بن علی بن وہف القحطانی |
Publisher | مکتبہ توعیۃ الجالیات |
Publish Year | |
Translator | ابو عبد اللہ عنایت اللہ بن حفیظ اللہ سنابلی مدنی |
Volume | |
Number of Pages | 262 |
Introduction |