Maktaba Wahhabi

90 - 702
جب کہ سورت آل عمران جس میں اہل کتاب کا ذکر ہے؛ یہ اس وقت نازل ہوئی جب اہل نجران کا وفد آیا ؛ یہ سن نو یا دس ہجری کا واقعہ ہے۔ ۲۔ دوم: بیشک ابن سلام اور ان کے امثال کا شمار جملہ صحابہ اور اہل ایمان میں سے ان کے ایک فرد کے طور پر ہوتا تھا۔ بلکہ آپ کا شمار فضلائے صحابہ میں سے ہوتا ہے؛ یہی حال حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا بھی ہے۔ تو ان کے متعلق یہ نہیں کہا جاسکتاکہ وہ اہل کتاب میں سے ہیں ۔ بیشک ان کا اجر وثواب باقی تمام اہل ایمان کی طرح ہے۔بلکہ انہیں دوگنا اجر دیا جائے گا۔ یہ لوگ تمام شرائع اسلام کا التزام کیا کرتے تھے۔ ان کا اجر اس کی نسبت بہت بڑا ہے؛ کہ ان کے متعلق کہا جائے ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے۔ مزید برآں ان حضرات کا ظاہری معاملہ بڑا ہی معروف تھا۔ ان کے متعلق کوئی ایک کسی قسم کے شک و شبہ کا شکار نہیں تھا۔ تو پھر ان کی بابت ایسی اطلاع دینے میں کون سا فائدہ تھا؟ یہ تو ویسے ہی ہے جیسے کہا جاتا ہے:اسلام ان تمام لوگوں میں داخل ہوا جو مشرک تھے یا جو اہل کتاب تھے۔ یہ بات تو سبھی جانتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل دین اسلام کو کوئی نہیں جانتا تھا۔ پس جتنے بھی لوگ اسلام میں داخل ہوئے؛ وہ اس سے پہلے یا تو مشرک تھے؛ یا پھر اہل کتاب تھے۔ یاتو لکھنا پڑھنا جانتے تھے یا پھر ان پڑھ اور امّی تھے۔ تو پھر ایسی باتیں بتانے کا کیا فائدہ ؟ بخلاف نجاشی اور اس کے اصحاب کے۔ جو کہ بہت ساری ان چیزوں کااظہار کرتے تھے؛ جن پر نصاری قائم تھے۔بیشک ان کا معاملہ مشتبہ تھا۔ یہی وجہ کہ اس آیت کی شان نزول میں ذکر کیا جاتا ہے کہ یہ تب نازل ہوئی جب نجاشی کا انتقال ہوا؛ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نماز جنازہ پڑھی ؛ تو کسی کہنے والے نے کہا: کیا ہم اس موٹے وحشی عیسائی کی نماز جنازہ پڑھیں گے؛ اوروہ اپنی سرزمین پر [مزے کررہا ]ہے۔تویہ آیت نازل ہوئی۔ یہ قول حضرت جابر؛ حضرت انس بن مالک اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم سے منقول ہے۔ یہ وہ صحابہ ہیں جنہوں نے نجاشی رحمہ اللہ کی نماز جنازہ میں شرکت کی تھی۔ یہ معاملہ حضرت عبداللہ بن سلام اور حضرت سلمان الفارسی رضی اللہ عنہماکے برعکس ہے۔ کیونکہ اگر ان میں سے کسی ایک پر [1]
Flag Counter