احمد رحمہ اللہ سے بھی ایک روایت میں یہی منقول ہے۔
یہ بھی کہا گیا: بلکہ یہ آیت ان لوگوں کے حق میں نازل ہوئی ہے؛ جو اسلام لائے؛ مگر ہجرت نہیں کرسکے ۔ یہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا قول ہے۔ لیکن آپ نے اس میں کفارہ واجب قرار دیاہے۔اور یہ بھی کہا گیاہے: جب اہل حرب میں سے ہو؛ اور اس کا کوئی وارث نہ ہو تو اہل حرب کو اس کی دیت ادا نہیں کی جائے گی۔بلکہ اس صورت میں صرف کفارہ ہی واجب ہوگا۔ بھلے اس کا پتہ چل گیا ہو کہ وہ مؤمن ہے؛ اور غلطی سے اس کا قتل ہوگیا ہو۔ یا یہ گمان ہو کہ وہ کافر ہے؛ ظاہر آیت سے یہی مستفاد ہوتا ہے۔
بعض مفسرین نے کہا ہے: یہ آیت عبداللہ بن سلام اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی۔ جیسا کہ ابن جریج؛ مقاتل اور ابن زید رحمہم اللہ سے منقول ہے۔ یعنی یوں فرمایا جارہا ہے: ’’بیشک اہل کتاب میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں ۔‘‘ اور بعض نے کہا ہے: یہ آیت اہل کتاب یہود ونصاری کے مؤمنین کے بارے میں ہے۔
اگریہ بات کہنے والے کی مراد وہ لوگ ہیں جو ظاہر میں اہل کتاب میں شمار ہوتے ہیں ؛ تو یہ بھی پہلے قول کی طرح ہے اوراگر اس سے مراد عموم ہے؛تو پھر یہ دوسرے قول کی طرح ہے۔ یہ امام مجاہد کا قول ہے؛ جو کہ ابو صالح نے ابن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت کیاہے۔ اور ان لوگوں کا قول جو اس میں ابن سلام اور ان کے امثال کو شمار کرتے ہیں ؛ یہ ضعیف قول ہے۔بیشک یہ لوگ ظاہری اور باطنی طور پرہر طرح سے پکے مؤمن تھے۔ان کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اللہ تعالیٰ ان کے متعلق فرماتے ہیں :
﴿وَ اِنَّ مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ لَمَنْ یُّؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ وَ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِمْ خٰشِعِیْنَ لِلّٰہِ لَا یَشْتَرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ ثَمَنًا قَلِیْلًا اُولٰٓئِکَ لَہُمْ اَجْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ اِنَّ اللّٰہَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ ﴾
[آل عمران ۱۹۹]
’’اور بلاشبہ اہل کتاب میں سے کچھ لوگ یقیناً ایسے ہیں جو اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور اس پر بھی جو تمھاری طرف نازل کیا گیا اور جو ان کی طرف نازل کیا گیا، اللہ کے لیے عاجزی کرنے والے ہیں ، وہ اللہ کی آیات کے بدلے تھوڑی قیمت نہیں لیتے۔ یہی لوگ ہیں جن کے لیے ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے، بے شک اللہ بہت جلد حساب لینے والا ہے۔‘‘
۱۔ اول: جہاں تک عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کا تعلق ہے؛ تو جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو آپ نے پیش خدمت ہوکر اپنے خیالات یوں ظاہر کئے :
’’جب میں نے آپ کا چہرہ دیکھا تو مجھے یقین ہوگیا کہ یہ چہرہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہوسکتا۔‘‘[1]
|