حضرت جابر؛ابن عباس اور انس رضی اللہ عنہم سے روایت کیا گیاہے۔ ان میں سے بعض علماء نے کہاہے:آپ کے صحابہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ جیسا کہ حضرت حسن اور حضرت قتادہ رحمہما اللہ کا قول ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی یہی مراد ہے۔ لیکن یہاں پر مراد مطاع ہے۔ کیونکہ آیت کے الفاظ جمع کے صیغہ میں وارد ہوئے ہیں ؛ ان سے مراد ایک نہیں ہے۔ اور حضرت عطاء رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ یہ آیت اہل نجران کے چالیس اور اہل حبشہ کے تیس اور اہل روم کے اسی لوگوں کے متعلق نازل ہوئی ہے؛ جو کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دین پر تھے؛ اورپھر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے۔
ان حضرات نے ان لوگوں کا ذکر نہیں کیاجو مدینہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تھے؛ جیسے حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ اور دیگرجو کہ پہلے یہود ی تھے؛ اور حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ اور دیگر وہ لوگ جو نصرانیت پر تھے۔بیشک یہ لوگ ایمان لانے کے بعد مؤمن ہوگئے تھے۔ ان کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ:
﴿ وَ اِنَّ مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ لَمَنْ یُّؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ وَ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِمْ ﴾
[آل عمران۱۹۹]
’’اور بلاشبہ اہل کتاب میں سے کچھ لوگ یقیناً ایسے ہیں جو اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور اس پر بھی جو تمھاری طرف نازل کیا گیا اور جو ان کی طرف نازل کیا گیا۔‘‘
کوئی ایک یہ بھی نہیں کہتا کہ یہود و نصاری اپنے اسلام قبول کرنے؛ ہجرت کرنے اور جملہ مہاجرین و مجاہدین مسلمانوں میں داخل ہونے کے بعد بھی اہل کتاب تھے۔ جیساکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ؛جو وہ مشرکین تھے ؛کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مشرکین میں جو لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے بعد بھی مشرکین ہی باقی رہے۔ پس یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ لوگ اہل کتاب میں تھے؛ پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے۔
جیسا کہ خطأ سے قتل ہوجانے والے کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ فَاِنْ کَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّلَّکُمْ وَ ہُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ ﴾ [النساء۹۲]
’’ اور اگروہ تمھاری دشمن قوم سے ہو؛اوروہ مؤمن ہو تو ایک مومن گردن آزاد کرنا ہے۔‘‘
یعنی وہ ہے تو دشمن قوم سے؛ مگروہ ایمان لے آیا؛ اوراس کے لیے ہجرت کرنا؛ ایمان کا اظہار کرنا اور شریعت اسلام کا التزام کرنا ممکن نہیں تھا۔تو اسے بھی مؤمن کہہ کر پکارا گیا ہے۔کیونکہ اس نے ایمان کا اتنا کام ضرور کیا ہے جس قدر اس کے لیے ممکن تھا۔
یہ بالکل ویسے ہی ہے جیسے مکہ مکرمہ میں اہل ایمان کی ایک جماعت موجود تھی؛ جو اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھے۔اور وہ ہجرت کرنے سے بھی عاجز آگئے تھے۔ [ان کے متعلق ]اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفّٰہُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ ظَالِمِیْٓ اَنْفُسِہِمْ قَالُوْا فِیْمَ کُنْتُمْ قَالُوْا کُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ فِی الْاَرْضِ قَالُوْٓا اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اللّٰہِ وَاسِعَۃً فَتُہَاجِرُوْا فِیْہَا فَاُولًٰئِکَ مَاْوٰیہُمْ جَہَنَّمُ وَ سَآئَ تْ
|