’’کوئی نفس اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیا جاتا۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿لاَ یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِِلَّا مَا اٰتٰہَا سَیَجْعَلُ اللّٰہُ بَعْدَ عُسْرٍ یُسْرًا﴾ (الطلاق7)
’’ اللہ کسی شخص کو تکلیف نہیں دیتا مگر اسی کی جو اس نے اسے دیا ہے، عنقریب اللہ تنگی کے بعد آسانی پیدا کر دے گا۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ حسب استطاعت اپنا تقوی اختیار کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
﴿فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُم﴾[التغابن ۱۶]
’’سو اللہ سے ڈرو جتنی طاقت رکھو ۔‘‘
اوراہل ایمان اللہ تعالیٰ سے ان الفاظ میں کرتے ہیں :
﴿ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِیْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَا رَبَّنَا وَ لَا تَحْمِلْ عَلَیْنَآ اِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہٗ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَ لَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ ﴾[البقرۃ ۲۸۶]
’’ اے ہمارے رب! ہم سے مؤاخذہ نہ کر اگر ہم بھول جائیں یا خطا کر جائیں ، اے ہمارے رب! اور ہم پر کوئی بھاری بوجھ نہ ڈال، جیسے تو نے اسے ان لوگوں پر ڈالا جو ہم سے پہلے تھے، اے ہمارے رب! اور ہم سے وہ چیز نہ اٹھوا جس (کے اٹھانے) کی ہم میں طاقت نہ ہو۔‘‘
تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ میں نے ایسا ہی کردیا۔‘‘
یہ نصوص اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی نفس پر اتنا بوجھ نہیں ڈالتے جس سے وہ عاجز آجائیں ۔برخلاف جہمیہ اور مجبرہ کے۔ اور اس بات پر بھی دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ بھول چوک کرجانے والے اور خطا کار سے مؤاخذہ نہیں کرتے۔ برخلاف قدریہ اور معتزلہ کے۔ یہ اس باب میں فصل[فیصلہ کن] خطاب ہے۔
پس استدلال کرنے والا مجتہد ؛خواہ وہ امام ہو یا حاکم؛ عالم ہو یا مناظر ؛مفتی ہو یا کوئی دیگر؛ جب وہ استدلال کرتا ہے؛ اورحسب استطاعت اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اجتہاد کرتا ہے؛ تو یہی وہ چیز ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے اسے مکلف ٹھہرایا ہے۔ اور وہ اس عمل میں اللہ تعالیٰ کا اطاعت گزار اورثواب کا مستحق ہے؛ جب وہ اپنی استطاعت کے مطابق تقوی اختیار کرے۔ اللہ تعالیٰ اسے بالکل کوئی سزا نہیں دیں گے۔ بخلاف جہمیہ اور مجبرہ کے۔وہ راہ حق پر ہے؛ یعنی اللہ تعالیٰ کا اطاعت گزار ہے۔لیکن کبھی ایسے ہوسکتا ہے کہ اسے اسی معاملہ میں حق کا علم ہو؛ اورکبھی حق کے علم سے محرومی بھی ہوسکتی ہے۔ برخلاف قدریہ اور معتزلہ کے؛ ان کا عقیدہ ہے کہ جو اپنی تمام تر کوششیں برؤئے کار لاتا ہے وہ حق کی معرفت تک رسائی حاصل کرلیتا ہے۔ بیشک یا بات باطل ہے؛ جیسا کہ اس سے پہلے گزر چکا۔ بلکہ حقیقت ہے یہ کہ معرفت حق کے لیے کوششیں کرنے والا عند اللہ ثواب کا حق دار ہے۔
|