ضروری نہیں ہے؛ بلکہ اللہ تعالیٰ صرف اپنی مرضی اور چاہت سے ایسا کرسکتے ہیں ۔
٭ ان دونوں گروہوں کی اصل یہ ہے کہ: بیشک قادر اور مختار دو متماثلین میں سے کسی ایک کو دوسرے پر بغیر کسی وجہ کے ترجیح دے سکتا ہے۔ لیکن جہمیہ کہتے ہیں : وہ ہر ایک واقع ؍حادث میں بلا کسی مرجّح کے ترجیح دے سکتا ہے۔ اور قدریہ ؛ معتزلہ اورکرامیہ اور فقہاء و اہل حدیث اور صوفیہ کے کئی گروہ او ران کے علاوہ دیگر حضرات کہتے ہیں : احداث و ابداع کی اصل ترجیح بلا مرجح پر تھی۔ مگر اس کے بعد اسباب اور حکمت کو تخلیق کیا؛ اور حوادث کو ان کے ساتھ معلق کردیا۔
٭ ظلم کے بارے میں جبریہ ؛ قدریہ او رجہمیہ کا اختلاف ہے۔ قدریہ کہتے ہیں : ظلم اس کے حق میں بھی وہی چیز ہے جسے لوگ آپس میں ایک دوسرے کے مابین ظلم کے نام سے جانتے ہیں ۔ اور جب یہ کہا جائے کہ: وہ بندوں کے افعال کا خالق ہے؛ اور جو کچھ بھی وقوع پذیر ہوتا ہے وہ اس کی مشئیت اور ارادہ سے پیش آتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ: وہ گنہگار کو عذاب دے گا؛[تو کیا]یہ ظلم بھی ہمارے ظلم کی طرح ہوگا؟یہ لوگ اپنے آپ کو عدلیہ کہتے ہیں ۔ اور جہمیہ کہتے ہیں : اس کے حق میں ظلم وہ چیز ہے جس کا وجود ممتنع ہو۔ پس جس چیز کا بھی وجود ممکن ہو؛ وہ ظلم نہیں ہے۔ پس بیشک ظلم یا تو ایسے حکم کی مخالفت کو کہا جاتا ہے جس کا کرنا واجب ہو؛ یا بھر کسی دوسرے کی ملکیت میں اس کی اجازت کے بغیر تصرف کرنے کو ظلم کہتے ہیں ۔ پس انسان کے بارے میں تو کہا جاسکتا ہے کہ اس نے اپنے رب کے حکم کی مخالفت کی؛ اور اس لیے کہ وہ کسی دوسرے کی ملکیت میں اس کی اجازت کے بغیر تصرف کرتا ہے۔ مگر رب سبحانہ و تعالیٰ ہر حکم دینے والے سے بھی اوپر اور بلند و بالا ہیں ۔ اور اس کے بغیر کسی کی کوئی ملکیت نہیں ۔ بلکہ وہ جو بھی تصرف کرتا ہے؛ وہ اپنی ہی ملکیت میں تصرف کرتا ہے۔پس جو بھی ممکن ہے؛ وہ ظلم نہیں ہے۔ بلکہ اس نے فرعون اور ابو جہل اور ان کے امثال کافروں اور نافرمانوں پر اپنی نعمتیں کی تھیں ۔اور حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھ ایمان لانے والوں کو اور اپنی اطاعت کرنے والوں کو تکلیف دی۔ اور اس کا الٹ بھی ہوا۔ یہ تمام اس کی نسب سے برابر ہیں ۔ لیکن جب اس نے خبر دی ہے کہ وہ اپنے اطاعت گزاروں پر انعام کرے گا؛ اور نافرمان کو عذاب دیتا ہے؛ تو یہ معاملہ اس خبر صادق کی وجہ سے معلوم الوقوع ہو گیا۔ کوئی اور سبب نہیں تھا جو اس کا تقاضا کرتا ہو۔ اعمال ثواب یا عقاب پر علامت ہیں : اس کے اسباب میں سے نہیں ہیں ۔
٭ یہ جہم اور اس کے ساتھیوں ؛اور ان کی موافقت کرنے والوں جیسے اشعری ؛ اور اس کے موافقین اتباع فقہاء اربعہ اور صوفیاء اور دیگر لوگوں کا عقیدہ ہے۔ اسی وجہ سے یہ لوگ اس بات کو جائز کہتے ہیں کہ: وہ حق کی معرفت سے عاجز انسان کو عذاب دے؛ بھلے اس نے معرفت حق کی کوشش بھی کی ہو۔ پس ان لوگوں کے نزدیک نفس امر میں حوادث کے لیے نہ ہی اسباب ہوتے ہیں اور نہ ہی حکمت۔ اور نہ ہی افعال میں کوئی ایسی صفات پائی جاتی ہیں جن کی وجہ یہ مامور یا ممنوع ہوتے ہیں ۔ بلکہ ان کے نزدیک ممتنع ہے کہ اس کی تخلیق اور حکم میں علت نام کی کوئی چیز ہو۔
|