٭ جب کہ قدریہ بندوں پر قیاس کرتے ہوئے اس کے لیے شریعت میں حلال و حرام کو واجب ٹھہراتے ہیں ۔ ہم نے کئی ایک مواقع پر ان دونوں گروہوں کے عقائد پر بات کی ہے۔اوراس کتاب میں بھی اس سلسلہ میں ایک پوری فصل بیان کی ہے۔ جو کہ پہلے گزر چکی ہے۔ جب ہم نے اس رافضی پر اس قول میں رد کیا تھا جو اس نے جہمیہ اور جبریہ کا عقیدہ تمام اہل سنت و الجماعت کی طرف منسوب کیا تھا۔ اور ہم نے کھلے لفظوں میں واضح کیا تھا کہ اس مسئلہ کا امام یا تفضیل سے کوئی تعلق ہی نہیں ۔ بلکہ شیعہ میں بھی بہت سارے ایسے لوگ ہیں جو جبریہ اور قدریہ کا عقیدہ رکھتے ہیں ؛اور اہل سنت میں بھی ہر دو عقائد کے لوگ موجود ہیں ۔
٭ یہاں پر مقصود یہ بیان کرنا ہے کہ: بیشک متنازعین کے کلام میں تصویب کرنا؛ کہ وہ دونوں حق پر ہیں ؛ یا خطأ پر ہیں ؛ یا انہیں ثواب ملے گا؛ یا عقاب ہوگا؛ وہ دونوں مؤمن ہیں یا کافر ہیں ۔ یہ سب کچھ ان تمام مسائل اور دیگر مسائل کے لیے عام اور شامل اصول کی فرع ہے۔
تیسرا قول :....ہر مجتہد حق کو معلوم کرنے پر قادر نہیں اور نہ ہی وعید کا مستحق ہے۔ بخلاف ازیں وہی مجتہد وعید کا مستحق ہو گا جو کسی فعل مامور کو ترک کر دے یا فعل محظور کا مرتکب ہو۔ یہ فقہاء ائمہ کا قول ہے، سلف صالحین اور جمہور اہل اسلام اسی کے قائل ہیں پہلے دونوں اقوال میں جو صحیح بات پائی جاتی ہے۔ یہ قول ان کا جامع ہے۔پہلے قول میں ان جہمیہ کی بات بھی درست ہے جو اس مسئلہ میں سلف صالحین اور جمہور کے عقیدہ کے موافق ہیں ؛ اوروہ یہ ہے کہ: ’’ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہر وہ انسان جو طلب اور کوشش کرے؛ اور اجتہاد کرے؛ تو وہ اس مسئلہ میں حق کی معرفت پر متمکن بھی ہو جائے۔یقیناً لوگوں کی صلاحیات مختلف ہوتی ہیں ۔
٭ قدریہ کہتے ہیں : ’’اللہ تعالیٰ نے تمام مکلفین کو برابر قدرت دی ہے۔ اس میں مؤمن کے لیے کافروں پر اس وقت تک کوئی وجہ فضیلت نہیں ہے حتی کہ وہ ایمان لے آئیں ۔ اور ایسے ہی اطاعت گزاروں کو نافرمانوں پر اس تک کوئی فضیل نہیں ہے جب تک وہ اطاعت گزاری نہ کرلیں ۔
٭ یہ قدریہ اور معتزلہ اور ان کے علاوہ دیگر ان فرقوں کا عقیدہ ہے جو کتاب و سنت اور اجماع سلف صالحین اور عقل صریح کے مخالف ہیں ۔ جیسا کہ یہ موضوع کئی مقامات پر تفصیل سے بیان ہوچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کہتے ہیں : بیشک ہر استدلال کرنے و الے کوقدرت تامہ حاصل ہوتی ہے حتی کہ وہ حق کی معرفت حاصل کرلے۔
٭ یہ بات معلوم شدہ ہے کہ:جب دوران سفر لوگوں پرقبلہ مشتبہ ہو جائے تو وہ تمام اس بات کے مامور ہیں کہ اجتہاد کرکے قبلہ کی جہت پر استدلال کریں ۔ پھر ان میں سے بعض قبلہ کا رخ پہچاننے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔ اور بعض اس سے عاجز آکر غلطی کر بیٹھتے ہیں ۔ بعض جگہ پر یہ گمان ہوتا ہے کہ قبلہ کا رخ اس طرف ہے۔ مگر یہ بات درست نہیں نکلتی۔ مگر اس کے باوجود وہ انسان اللہ تعالیٰ کا اطاعت گزار ہے؛ غلط رخ نماز پڑھنے پر اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کسی نفس کو اس کی وسعت سے بڑھ کر کا مکلف نہیں ٹھہراتے۔ پس اس جہت کے
|