میں ہے۔ لیکن بہت سارے لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ عقلی رو سے یہ اصول بالکل صحیح ہیں ۔ جبکہ ائمہ ماہرین فنون اور ان کے متبعین جانتے ہیں کہ یہ اصول عقل کے لحاظ سے بھی باطل ہیں ۔ دین و شریعت میں بدعت ہیں : اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے پیغام سے ٹکراؤ رکھتے ہیں ۔
٭ پس درایں صورت اگر خطا عقلی مسائل میں ہو؛ جن کے بارے میں کہتے ہیں کہ: یہ دین کے اصول ہیں : تو پھر جو لوگ ان خود ساختہ باطل اصولوں پر چلتے ہیں جو کہ عقل میں باطل ؛ اور شریعت میں بدعت ہیں ؛ تو وہی لوگ کفار ہیں ؛ ان کے مخالفین نہیں ۔ اور اگر ان امور میں خطا کفر نہیں ہے؛ تو پھر ان کے مخالفین کو بھی کافر نہیں کہا جاسکتا۔ تواس سے یہ ثابت ہوا کہ ہر دو صورتوں میں وہ اللہ اور اس کے رسول کے حکم میں کافر نہیں ہیں ۔
٭ لیکن اہل بدعت کا طریقہ کار یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنی طرف سے اقوال ایجاد کر لیتے ہیں : اور پھر انہیں دین میں واجب قرار دیتے ہیں ؛ یہی نہیں بلکہ انہیں ایمان قرار دیتے ہیں ؛ جس کا ہونا از بس ضروری ہو؛اور پھر جو کوئی ان کی مخالفت کرے ؛ اسے کافر کہتے ہیں ۔ اور ان کے خون کو حلال قرار دیتے ہیں ؛ جیسے خوارج ؛ جہمیہ ؛ روافض اور معتزلہ اور دیگر اہل بدعت فرقوں کا طریق کار ہے۔
٭ جب کہ اہل سنت والجماعت نہ ہی اپنی طرف سے عقائد ایجاد کرتے ہیں ؛ اور نہ ہی اجتہاد میں خطأ کے مرتکب کو کافر کہتے ہیں ۔ اگرچہ ان کا مخالف انہیں کافر اور حلال الدم سمجھتا ہو۔ اوروہ اپنے مخالفین دیگر مسلمانوں کو بھی حلال الدم سمجھتے ہوں ۔
٭ ان مسائل میں ان متکلمین کا کلام کسی کی تصویب یا خطاء کاری کا حکم؛ گنہگار ہونے کا حکم لگانایا اس کی نفی کرنا ؛ تکفیر اور اس کا انکار ؛ یہ اس وجہ سے کہ انہوں نے اپنے اصولوں کی بنیاد اپنے متقدمین قدریہ کے اقوال و عقائد پر رکھی ہے؛ جو ہر استدلال کرنے والے حق کی معرفت پر قادر سمجھتے ہیں ۔ اور ہر اس انسان کو عذاب کا مستحق سمجھتے ہیں جو ان کی معرفت حاصل نہ کرسکے۔ اوران جہمیہ کے عقائد پر ہے؛ جو کہتے ہیں : انسان کو اصل میں کوئی بھی قدرت حاصل نہیں ہوتی۔ بلکہ اللہ تعالیٰ محض اپنی مشئیت و ارادہ سے جس کو چاہے عذاب دیں ۔ وہ ایسوں کو بھی عذاب دے سکتا ہے جس نے کبھی کوئی بھی گناہ نہ کیا ہو۔ اور کفر و فسق کے مرتکب کو اپنے انعامات سے نواز سکتا ہے۔ بہت سارے متأخرین نے اس عقیدہ میں ان لوگوں کی موافقت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے: ’’یہ جائز ہے کہ اللہ تعالیٰ بچوں اور پاگلوں کو عذاب دے؛ اگرچہ انہوں نے دنیا میں کوئی بھی گناہ نہ کیا ہو۔ اور پھر ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو دو ٹوک الفاظ میں آخرت میں کفار کے بچوں کو عذاب دیے جانے کا عقیدہ رکھتے ہیں ۔ اور ان میں سے بعض اسے جائز کہتے ہیں ؛ اور کہتے ہیں : ہم نہیں جانتے کہ آخرت میں کیا ہوگا۔اور ان لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ: اللہ تعالیٰ کے لیے جائز ہے کہ وہ اہل قبلہ میں سے کسی فاسق ترین انسان کو بغیر کسی سبب کے بخش دے؛ اور کسی نیک انسان کو کسی معمولی سی غلطی پر مبتلائے عذاب کردے۔ بھلے اس کی نیکیاں پہاڑوں کے برابر ہوں ؛ اس کے لیے کسی سبب کا ہونا
|