٭ جب معاملہ ایسے ہی ہے تو پھر کسی انسان کا مسلمان یا کافر ہونا یا عادل یا فاسق ہونا؛ شرعی مسائل میں سے ہیں عقلی مسائل میں سے نہیں ۔ پس یہ کیسے ہوسکتاہے کہ جو کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیمات کے خلاف کرے؛ وہ تو کافر نہ ہو؛ مگرجو کوئی غیر نبی کے اس دعوی کہ:’’یہ چیز عقل سے معلوم ہے‘‘ کے خلاف کرے تو وہ کافر ہو جائے ۔ تو کیا کسی کو حساب ؛ طب اوردیگر دقیق کلام میں غلط کی وجہ سے کافر کہا جائے ۔
٭ پس اگریہ کہا جائے کہ: ’’وہ تمام لوگ جو ہرقسم کے عقلی مسائل میں مخالفت کرتے ہیں ؛ ان کو کافر نہیں کہا جائے گا۔ہاں جو ان عقلی مسائل میں مخالفت کریں جن سے رسول اللہ کی صداقت معلوم ہوتی ہو۔ پس بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا علم پر مبنی ہوتا ہے۔ یہ چند متعین مسائل ہیں ؛ جب انسان ان میں خطا کرتا ہے؛ اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا علم نہ ہو۔تووہ کفار ہوگا۔
٭ یہ بھی کہا گیا ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق اختلافی مسائل میں چند متعین مسائل پر مبنی نہیں ہوتی۔ بلکہ جدیداہل کلام نے اسے صدق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم کی بنیاد قرار ہی نہیں دیا تھا۔ جیسے معتزلہ اور جہمیہ میں سے ان لوگوں کا قول جو کہتے ہیں کہ: ’’ بیشک صداقت رسول کا علم اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک یہ معلوم ن ہو جائے کہ یہ عالم حادث ہے۔ اور اس کا علم اس وقت تک نہیں ہوسکتاجس وقت تک یہ علم حاصل نہ ہو جائے کہ ’’اجسام محدث ہیں ۔‘‘ اور اس کا علم اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتا جب تک یہ علم نہ ہو کہ یہ دوسرے حوادث سے جدانہیں ہوسکتے: یا تووہ مطلق اعراض ہوں گے یا پھر اکوان ہوں گے یا پھر حرکات ہوں گے۔ اور ان کا حادث ہونا اس وقت تک معلوم نہیں ہوسکتا جب تک ایسے حوادثات کا علم نہ ہوجائے جن کی کوئی ابتداء نہیں ۔اور ان کی سچائی کا اس وقت تک معلوم نہیں ہوسکتا جب تک یہ علم نہ حاصل ہوجائے کہ ’’رب سبحانہ و تعالیٰ غنی اور بے نیاز ‘‘ ہیں ۔ اور اس کا غنی ہونا اس وقت تک معلوم نہیں ہوسکتا جب تک یہ معلوم نہ ہو جائے کہ وہ جسم نہیں ہے۔
٭ ایسے ہی دیگر وہ امور جن کے بارے میں اہل کلام کے ایک طائفہ کا گمان ہے کہ وہ اصول ہیں ؛ کیونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کو متضمن ہیں ؛ اور ان کے بغیر آپ کی صداقت معلوم نہیں ہوسکتی۔ یہ امور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین میں اضطراری طور پر معلوم ہیں ؛ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے ایمان کو ان امور پرموقوف نہیں کیا؛ اور نہ ہی لوگوں کو ان کی دعوت دی؛ اور نہ ہی کتاب و سنت میں ان کا کوئی ذکر ملتا ہے۔ اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان کا کوئی ذکر کیا ۔ لیکن وہ اصول جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت معلوم ہوتی ہے؛ وہ قرآن میں مذکور ہیں ؛ اوریہ امور وہ نہیں ہیں جو ان لوگوں نے بیان کئے ہیں ۔ یہ بات ہم کئی ایک مواقع پر بیان کرچکے ہیں ۔
٭ یہ لوگ جنہوں نے اصول ایجاد کر لیے ہیں ؛ ان کا خیال ہے کہ ان کے بغیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق ممکن نہیں ہے اور ان کی معرفت ایمان کے لیے شرط ہے۔ یا مختلف اعیان پرواجب ہیں ۔ یہ لوگ سلف صالحین اور ائمہ کے نزدیک اہل بدعت ہیں ۔ جمہور علماء جانتے ہیں کہ ان کے بنائے ہوئے اصول شریعت اسلام میں ایک نئی بدعت
|