٭ جیسا کہ اس عورت کا واقعہ ہے جس نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں زنا بھی کیا؛ او راس کا اقرار بھی کیا ؛ تو عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ : ’’یہ ایسے کھلے اعلانیہ اقرار کرتی ہے شائد کہ یہ زناکے حرام ہونے کے حکم سے جاہل ہے۔‘‘ تو جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر واضح ہوگیا کہ یہ زنا کو حلال سمجھتی ہے؛ تو اس پر کوئی حد نہیں لگائی۔ اور زنا کو حلال سمجھنا قطعی غلطی تھی۔
٭ ایسے ہی کوئی انسان جب کسی معاملہ میں قسم اٹھائے؛ اور وہ چیز اس کے اعتقاد کے برعکس ہو‘ تو جب اس پر حقیقت واضح ہو جائے تواس کا خطا کار ہونا تو قطعی ہوگا؛ مگر اس پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ اس پر تمام علماء کا اتفاق ہے۔ اور اکثر لوگوں کے نزدیک اس پر کوئی کفارہ بھی نہیں ہے۔
٭ ایسے ہی جو انسان اس اعتقاد اور سوچ سے کچھ کھاپی لے کہ ابھی طلوع فجر باقی ہے؛ توپھر اس کی غلطی واضح ہوجائے کہ اس نے فجر کے بعد کھایا پیا ہے۔ تو وہ بالیقین قطعی خطا پرہے مگر اس پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔لیکن اس روزہ کے قضاء کے بارے میں اختلاف ہے۔ ایسے ہی جس کا خیال ہوکہ سورج غروب ہوگیا ہے؛ اور وہ افطار کرلے؛ پھر اس کے خلاف ظاہر ہو۔ ایسے مسائل بہت زیادہ ہیں ۔
اﷲتعالیٰ مومنوں کی دعا کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
﴿رَبَّنَا لَا تُوَاخِذْنَا اِنْ نَّسِیْنَا اَوْ اَخْطَانَا﴾ (البقرۃ:۲۸۶)
’’اے ہمارے رب! اگر ہم سے بھول یا چوک ہو جائے تو ہم پر مواخذہ نہ کر۔‘‘
[تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ]میں نے ایساکردیا۔‘‘
[اﷲتعالیٰ نے مومنین کے نسیان و خطاء کو معاف کردیا ہے]اس میں قطعی اور ظنی میں کوئی فرق نہیں کیا۔ بلکہ اسے قطعی طور پر خطأ بھی نہیں کہا؛ ہاں اس صورت میں کہ اس کی خطأ قطعی اور یقینی ہو۔
٭ وہ کہتے ہیں : جس نے یہ کہا ہے کہ: کسی قطعی یا ظنی مسئلہ میں خطأ کا شکار ہونے والا گنہگار ہے؛ تو یقیناً اس نے کتاب و سنت اورقدیم اجماع امت کے خلاف کیا۔اور مزید یہ بھی کہتے ہیں : ’’کسی مسئلہ کا قطعی یا ظنی ہونا ؛ معتقدین کے احوال کے حساب سے ایک اضافی امر ہے۔ اور نہ ہی یہ نفس قول کا وصف ہے۔ بیشک انسان ایسی چیزوں کو قطعی کہتا ہے جن کا علم اسے ضروری طور پر حاصل ہو۔ یا پھر اس کے نزدیک اس کی سچائی نقل سے قطعی معلوم ہو۔ اور کسی دوسرے کو نہ ہی اس کا قطعی علم ہو اور نہ ہی ظنی ۔ بیشتر اوقات کوئی انسان ذہن و فطین ہوتا ہے؛ اس کا علمی اور ظنی ادراک بہت سریع [تیز] ہوتا ہے۔ اور وہ حق کو فوراً پہچان لیتا ہے؛ اور اسے وہ قطعی علم حاصل ہو جاتا ہے جس کی معرفت علمی یا ظنی کا دوسراتصور بھی نہیں کرسکتا۔ پس یہ قطعی اور ظنی ؛انسان تک پہنچنے والی ادلہ؛ اور اس کے استدلال پر دسترس کے اعتبار سے ہوتا ہے۔
٭ ان دونوں مسئلوں میں لوگوں کی صلاحیتیں مختلف ہوتی ہیں ۔ پس کسی مسئلے کا قطعی یا ظنی ہونا اس کی اور متنازعہ فیہ قول
|