ہی کسی کو فاسق کہا جاتا ہے اور نہ ہی کافر ۔
٭ کہتے ہیں : عملی مسائل میں علم بھی ہوتا ہے اور عمل بھی۔ جب ان میں غلطی قابل بخشش ہے: تو پھر وہ مسائل جن میں عمل کے بغیر صرف علم پایا جاتا ہے؛ زیادہ اولیٰ ہے کہ ان میں خطأ قابل بخشش ہو۔
٭ ان میں سے بعض کہتے ہیں : اصولی مسائل وہ ہیں جن پر قطعی دلیل پائی جائے اور فرعی وہ مسائل ہیں جن پر قطعی دلیل نہ ہو۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ: اس فرق میں بھی غلطی پائی جاتی ہے؛ بیشک بہت سارے عملی مسائل ہیں ایسے ہیں جن پر اہل علم کے ہاں قطعی دلیل پائی جاتی ہے۔ مگر دوسرے لوگ انہیں نہیں جانتے۔ اور ان میں سے بعض پر اجماع کی روشنی میں قطعی دلیل ہوتی ہے۔ جیسے ظاہری محرمات کا حرام ہونا۔ اور ظاہری واجبات کا واجب ہونا۔ پھر اگر کوئی انسان جہالت سے یا تأویل کی بنا پر ان کا انکار کرے تو اسے اس وقت تک کافر نہیں کہا جائے گا جب تک اس پر حجت قائم نہ کر لی جائے۔ جیسا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں کچھ لوگ ایسے تھے جو شراب کو [تاویل کی بنا پر] حلال سمجھتے تھے؛ ان میں سے ہی حضرت قدامہ بھی تھے ۔ ان کا خیال تھا کہ ان کے لیے شراب حلال ہے۔ لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے انہیں کافر نہیں کہا۔حتی کہ ان کے سامنے مسئلہ کھول کر بیان کیا گیا؛ اور ان کی غلطی ان پر واضح کی گئی؛ تو انہوں نے توبہ کرکے اپنی غلطی سے رجوع کرلیا۔
٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مسعود میں صحابہ کے ایک گروہ نے طلوع صبح کے بعد اس وقت تک کھایا پایا یہاں تک کالادھاگہ سفید دھاگے سے جدا نظر آنے لگا۔ مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں گنہگار نہیں ٹھہرایا؛ کجا کہ ان کی تکفیر کی جاتی ۔ لیکن ان کی غلطی ایک قطعی غلطی تھی۔
٭ ایسے ہی حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہماکا مسئلہ بھی ہے؛ جنہوں نے ایک مسلمان کو غلطی سے قتل کردیا تھا۔ اس میں ان کی غلطی قطعی غلطی تھی۔
٭ ایسے ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بکریوں کے ایک چرواہے کو پایا؛ اس نے تو کہا : میں مسلمان ہوں ؛ مگر ان لوگوں نے اسے قتل کرکے اس کے مال پر قبضہ کرلیا۔ ان کی یہ غلطی ایک قطعی غلطی تھی۔ اور ایسے ہی جب حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے جب بنو جذیمہ کو قتل کردیا؛ اور ان کے اموال قبضہ میں کرلیے ؛ تو یقیناً وہ قطعی غلطی پر تھے۔ایسے ہی جن لوگوں نے سرگوشیاں سننے کی کوشش کی تھی ؛ اور حضرت عمار رضی اللہ عنہ جوکہ جنابت کی وجہ سے مٹی میں ایسے لوٹ پوٹ ہوئے تھے جیسے جانور ہوتا ہے؛ اور ایسے ہی وہ لوگ جنہیں جنابت لاحق ہوئی تھی؛ تو نہ ہی انہوں نے تیمم کیا اور نہ ہی نماز پڑھی ۔ یہ سبھی حضرات غلطی پر تھے۔
٭ ہمارے اس زمانے میں اگر کسی دور دراز بستی کے لوگ اسلام قبول کرلیں ؛ اور انہیں حج کے فرض ہونے کاعلم نہ ہو ؛ یاپھر انہیں شراب حرام ہونے کا علم نہ ہو۔ تو انہیں اس چیز پر حد نہیں لگائی جائے گی۔ یہی حکم ان لوگوں کے لیے بھی ہے جو ایسی جگہ پر پلے بڑھے ہوں جہاں جہالت کا غلبہ ہو۔
|