ایسے نہ تھا۔اور ان لوگوں کے پاس ایک نوعیت کا قیاس اور رائے ہیں جن کے متعلق ان کا خیال ہے کہ یہ حق ہیں ۔جبکہ وہ باطل ہیں ۔
٭ تمام باتوں کا مجموعہ یہی تمام سرمایہ ہے جس کی وجہ سے شکوک و شبہات پیدا ہوئے ہیں ۔اگر انسانی نفوس ہوائے نفس سے خالی ہوں تو یہ شبہات پیدا نہیں ہوسکتے۔ مگربہت کم ہی لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے دل ہوائے نفس سے پاک ہوں ۔ جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿اِِنْ یَتَّبِعُوْنَ اِِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَہْوَی الْاَنْفُسُ وَلَقَدْ جَآئَ ہُمْ مِّنْ رَّبِّہِمُ الْہُدٰی﴾ [النجم۲۳]
’’ یہ لوگ صرف اٹکل کے اور اپنی نفسانی خواہشوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور یقیناً ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس ہدایت آچکی ہے۔‘‘
یہاں پر یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ جب فاضل کو والی بنانے میں کچھ اسباب مانع ہوں تو اس وقت مفضول کو والی بنانا جائز ہو جاتا ہے۔ یہ اہل سنت اور اہل شیعہ ہر ایک میں سے ایک ایک گرو ہ کا قول ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی حضرت امیر معاویہ کے ساتھ کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جو یہ کہتا ہو کہ آپ امام اور خلیفہ ہیں ۔ اور یہ کہ حضرت علی اور آپ کے ساتھیوں پر امیر معاویہ کی بیعت اور اطاعت واجب ہے۔ اور یہ کہ حضرت علی اگرچہ افضل ہیں مگر امیر معاویہ کو حاکم بنانا مصلحت کے زیادہ قریب ہے۔یہ بات کسی ایک نے بھی نہیں کہی اور نہ ہی اس پر لڑائی ہوئی ہے۔ یہ بات عام اہل کے بھی علم میں ۔ اور انہوں نے اپنی طرف سے حضرت علی اور ان کے ساتھیوں سے جنگ بھی شروع نہیں کی۔
اس لیے کہ خوارج اس سے پہلے یہ کام شروع کر چکے تھے۔ اس لیے کہ انہوں نے حضرت عبداللہ بن خباب کو وہاں سے گزرتے ہوئے قتل کردیا تھا۔خوارج نے ان سے کہا کہ وہ اپنے باپ خباب بن ارت سے سنی ہوئی حدیث رسول اللہ بیان کریں ۔ تو انہوں نے فتنوں کے بارے میں احادیث بیان کرنا شروع کیں ۔ آپ کا مقصد یہ تھا کہ شاید یہ لوگ فتنہ سے حق بات کی طرف لوٹ آئیں ۔تو انہوں نے آپ کو قتل کردیا۔ تو آپ کا خون بھی مشترکہ خون کی طرح رہا۔ حضرت علی نے ان کے پاس آدمی بھیجا کہ عبداللہ بن خباب کے قاتلوں کو ہمارے سپرد کردو۔ تو وہ کہنے لگے: ہم سب نے مل کر اسے قتل کیا ہے۔ پھر انہوں نے لوگوں کی چراگاہ پر حملہ کردیا اور وہاں چرنے والوں جانوروں اور چرواہوں کو اپنے ظلم کا نشانہ بنایا ۔جب حضرت علی نے دیکھا کہ یہ لوگ مسلمانوں کے خون اور اموال کو حلال سمجھنے لگے ہیں تو آپ نے ان کے سامنے وہ نصوص ذکر کیں جو ان کے اوصاف میں نبی کریم سے سنی تھیں اور ان سے قتال کرنے کا حکم دیا تھا۔ اور جب آپ نے دیکھا کہ رسول اللہ کے بیان کردہ اوصاف پوری طرح سے ان پر منطبق ہورہے ہیں تو آپ نے ان سے قتال کیا۔ اور اللہ تعالیٰ نے ان کے خلاف آپ کی نصرت فرمائی ۔ آپ اس پر بہت خوش ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے سامنے اس وقت سجدہ شکر بجا لائے جب آپ کو پتہ چلا کہ ٹنڈا(ناقص ہاتھ والا) ان کے ساتھ ہے۔ اس لیے کہ ٹنڈے کی موجودگی وہ نشانی تھی جس کے بارے میں رسول اللہ نے خبر دی تھی۔ اور صحابہ کرام کا ان سے قتال پر اتفاق تھا۔ پس آپ نے خوارج سے جو جنگ
|