لڑی وہ نص رسول اللہ اور اجماع صحابہ کی روشنی میں تھی۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا خوارج سے قتال کرنا نص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اوراجماع صحابہ رضی اللہ عنہم کی روشنی میں تھا۔
٭ جبکہ جمل اورصفین کی جنگوں کے بارے میں خود حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ذکر کیا ہے کہ آپ کے پاس اس سلسلہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول کوئی نص نہیں تھی؛ بلکہ یہ محض آپ کی رائے تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر صحابہ نے اس قتال میں آپ کی موافقت نہیں کی تھی۔بلکہ اکثر کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جیسے: حضرت سعد بن ابی وقاص‘عبداللہ بن عمر‘ اسامہ بن زید؛ محمدبن مسلمہ ؛اور ان کے امثال سابقین اولین مہاجرین و انصار رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد تابعین نے ان میں سے کسی بھی گروہ کا ساتھ نہیں دیا۔حالانکہ یہ سبھی لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بہت زیادہ تعظیم بجالانے والے تھے۔آپ سے محبت کرتے ؛ دوستی رکھتے؛ اورباقی لوگوں پرآپ کو مقدم رکھتے تھے۔اور آپ کے زمانہ میں آپ سے بڑھ کر کسی دوسرے کو خلافت کاحق دار نہیں سمجھتے تھے۔لیکن جنگ کے مسئلہ میں آپ کی رائے کی موافقت نہیں کی۔
٭ ان کے پاس ایسی نصوص تھیں جو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سن رکھی تھیں ‘ جن کی دلالت کا تقاضا تھا کہ جنگ اور فتنہ میں داخل ہونے سے بہتر یہ ہے قتال اور جنگ کو ترک کردیا جائے۔ ان نصوص میں قتال سے ممانعت کی روایات بھی تھیں ۔اس بارے میں معروف آثارتو بہت زیادہ اورکثرت کیساتھ تھے۔
٭ جب کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ مشہور سابقین اولین میں سے کوئی ایک بھی نہیں تھا۔ بلکہ سابقین اولین میں سے بعض لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے۔ان کی اکثرت فتنہ سے الگ اور دور رہی ۔حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کیساتھ ان میں سے کوئی نہیں تھا۔اوریہ بھی کہا گیا ہے کہ بعض سابقین اولین حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کیساتھ بھی تھے۔ عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے والے حضرت ابو الغادیہ رضی اللہ عنہ اہل بیعت رضوان میں سے تھے۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہیں سابقین اولین کہا جاتا ہے۔یہ بات ابن حزم رحمہ اللہ اور بعض دیگر علماء نے ذکر کی ہے۔
٭ یہاں پر مقصود یہ بیان کرنا ہے کہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کسی نے بھی اس وجہ سے جنگ نہیں کی کہ کوئی دوسرا انسان امام یا خلیفہ ہے۔اور نہ ہی کسی نے آپ کو کسی دوسرے کے پرچم تلے آنے کو کہا۔ پھر یہ کہ جب مصاحف بلند کیے گئے ؛ اور آپس میں فیصلہ کرنے کی طرف دعوت دی جانے لگی ؛ او راس بات پر ان کا آپس میں اتفاق بھی ہوگیا ۔ اور اگلے سال جب جمع ہوئے تو فیصلہ کرنے والوں نے یہ فیصلہ کیا کہ : حضرت امیر معاویہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہمادونوں کو معزول کردیا جائے ؛ اور مسلمانوں کی خلافت کا مسئلہ شوری کے ذریعہ حل کیا جائے۔
حکمین میں سے ایک نے کہا: اس نے اپنی ساتھی کو معزول کردیا ہے‘اور میں اپنے ساتھی کومعزول نہیں کررہا ۔ حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ کا میلان تھا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنادیا جائے۔ اس پر ابن عمر رضی اللہ عنہ بہت غصہ ہوئے۔ان لوگوں کااتفاق اس بات پر نہیں تھا کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو اس کے منصب سے معزول کیا جائے۔ اس لیے کہ اس سے پہلے آپ نے امیر المؤمنین نہیں تھے۔بلکہ آپ کوشام کی ولایت سے معزول کرنے پر اتفاق تھا۔
|