اس بات پر نہیں کی کہ آپ امام اور خلیفہ ہیں ۔اورنہ ہی جب آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بر سر پیکار تھے تو کسی نے آپ کو امام قرار دے کر آپ کی بیعت کی۔اورنہ ہی آپ اپنے آپ کو امیر المؤمنین کہلاتے تھے۔نہ ہی لوگوں میں سے کسی ایک نے آپ کو یہ خطاب دیا۔ اور نہ ہی تحکیم الحکمین سے قبل امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ولایت کا مطالبہ کیا ۔
٭ جب کہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اپنی خلافت کاتمام عرصہ خود کوامیر المؤمنین لکھاکرتے تھے۔اور مسلمان آپ کو امیر المؤمنین کہہ کر پکارا کرتے تھے۔لیکن جن لوگوں نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے ملکر آپ سے جنگیں لڑیں وہ آپ کو امیر المؤمنین نہیں مانتے تھے۔اورنہ ہی وہ آپ کے حلقہ اطاعت میں داخل ہوئے۔حالانکہ وہ اس بات کے معترف تھے کہ لوگوں میں اب آپ سے افضل کوئی دوسرا باقی نہیں بچا۔لیکن ان لوگوں کے اپنے اتنے تحفظات تھے جن کی بنا پر وہ آپ کی اطاعت میں داخل نہ ہوسکے۔ لیکن اس کے باوجود کسی ایک نے آپ سے اس بات پر جنگ نہیں کی کہ آپ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت کریں ‘اورنہ ہی آپ کو یا آپ کے ساتھیوں میں سے کسی ایک کو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت کی دعوت دی گئی اورنہ ہی یہ کہا گیا کہ : اگرچہ آپ حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ سے افضل ہیں ؛ مگروہ آپ سے زیادہ خلافت کے حق دار ہیں ۔ آپ پر واجب ہوتا ہے کہ ان کی اطاعت کریں ورنہ ہم آپ سے جنگ کریں گے۔
٭ جیسا کہ بہت سارے اچھے اور نیک دل زیدی شیعہ کہتے ہیں کہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر و عمرو عثمان رضی اللہ عنہم سے افضل تھے۔ لیکن مصلحت کا تقاضا یہ تھا کہ ان لوگوں کی خلافت منعقد کی جائے۔اس لیے کہ بہت سارے لوگوں کے دلوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف اس وجہ سے نفرت تھی کہ آپ نے ان کے بہت سارے اقارب کو قتل کیا تھا۔ تو یہ ممکن نہیں تھا کہ آپ کی خلافت پر تمام لوگوں کا اتفاق ہوجاتا۔ اس وجہ سے مفضول کو خلیفہ مقرر کیا جانا جائز تھا۔
٭ یہ قول ان لوگوں کا ہے جو شیعہ کے بہترین طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ان لوگوں کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ باقی لوگوں سے حضرت علی رضی اللہ عنہ افضل ہیں ۔ لیکن پھربھی یہ لوگ یہی کہتے ہیں :حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہماکی خلافت برحق ہے ؛ اس میں کسی طرح بھی تنقید کرنا ممکن نہیں ۔اس طرح سے یہ لوگ اپنی کوشش کے مطابق جامع القولین ہیں ۔
٭ ان لوگوں کا عذر وہ آثار ہیں ‘ جو انہوں نے سن رکھے تھے؛اوروہ امور تھے جو ان کے ذہن میں کھٹکتے تھے؛ ان کا تقاضا تھا کہ یہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو باقی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر فضیلت دیں ۔ جیسا کہ عوام الناس کے مابین مشہور اس طرح کے دیگرمسائل میں بھی ہوتا ہے ؛ جن میں حق ان دومیں سے ایک گروہ کے ساتھ ہوتا ہے۔ مگردوسرے گروہ کے پاس بھی ایسی منقولات ہوتی ہیں جن کے متعلق ان کا خیال ہوتا ہے کہ یہ بھی سچ اور درست ہیں ۔ لیکن انہیں اس بات کی خبر نہیں ہوتی کہ یہ آثار جھوٹ و اختراع ہیں ۔اور ان کے پاس جو آیات اور صحیح احادیث ہیں ‘ان میں وہ لوگ اپنے گمان کی وجہ سے تاویلات کا شکار ہوگئے ہیں ۔ان کا خیال یہ ہے کہ نص سے یہی مراد ہے۔ حالانکہ معاملہ
|