مسلمانوں کے گروہوں کے مابین خلفاء ثلاثہ کی امامت کے مسئلہ پر کوئی اختلاف نہیں تھا؛چہ جائے کہ اس بات پر جنگیں ہوتیں ؟
٭ یہی حال حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بھی تھا ۔ کسی ایک گروہ نے بھی اس بات پر جنگ نہیں کی کہ کوئی دوسرا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر خلافت کا حق دارہے۔اگرچہ لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہوں گے جو خلفاء اربعہ کی خلافت کوناپسند کرتے ہوں گے۔ ایسا ہونا ضروری ہے۔اس لیے کہ لوگوں میں ایسے افراد بھی موجود تھے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو بھی ناپسند کرتے تھے۔ تو پھر بعض خلفاء کی خلافت کو نا پسند کرنے والے کیوں نہیں ہوسکتے؟
٭ لیکن اس مسئلہ میں بھی لوگوں میں کوئی ظاہری اختلاف نہیں تھا ؛ کجا کہ وہ ایک دوسرے پر تلواریں سونت لیں ۔ جیسا کہ اہل علم کے مابین عقائداورعلمی مسائل میں اختلاف مشہورہے۔ایسا بھی ہوتا ہے کہ دو اختلاف کرنے والے گروہ مل بیٹھتے ہیں اور بعض علمی مسائل میں آپس میں مناظرہ کرتے ہیں ۔
٭ خلفاء اربعہ کے دور میں کوئی دو گروہ ایسے نہیں تھے جن میں کھلا ہوا اختلاف ہو۔ اورنہ ہی حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہماکو ان کے بعد میں آنے والوں پرتقدیم و فضیلت اور ان کی امامت کی صحت کے مسئلہ پر کوئی اختلاف تھا۔نہ ہی ان کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی فضیلت وصحت امامت میں کوئی اختلاف ہوا۔ اور نہ ہی ان تین یاروں کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت و امامت کے مسئلہ پر کسی کا کوئی اختلاف ہوا۔ اور ان چار یاروں کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں کوئی ایسا بھی نہیں تھا جو ان سے افضل ہو۔ اور نہ ہی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد مسلمانوں میں سے کسی ایک نے اس بات پر اختلاف کیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں ان سے بہتر بھی کوئی انسان موجود ہے۔ مسلمانوں کے معروف گروہوں میں سے کسی ایک نے حضرت طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہماکو بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ پر فضیلت نہیں دی چہ جائے کہ وہ حضرت معاویہ کو فضیلت دیتے۔ اگرچہ ان لوگوں نے پیش آمدہ شبہ کی بنیاد پر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جنگ بھی لڑی۔لیکن یہ جنگیں ہر گز نہ اس بنیاد پر تھیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر افضل کوئی دوسرا ہے ‘ اور نہ ہی اس بنیاد پر تھیں کہ آپ کے علاوہ کوئی دوسرا خلیفہ و امام ہے۔ اور نہ ہی حضرت طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہمامیں سے کسی نے اپنے آپ کو امیر المؤمنین کہا؛ اورنہ ہی کسی ایک نے اس بات پر ان میں سے کسی ایک کی بیعت کی۔
جب کہ بہت سارے مسلمانوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کرلی تھی۔اہل مدینہ کے اکثر لوگ آپ کو امیر المؤمنین مانتے تھے۔ جب کہ کسی ایک نے بھی حضرات طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما میں سے کسی کی بھی بیعت نہیں کی تھی۔اور نہ ہی ان میں سے کسی ایک نے لوگوں کو اپنی بیعت کرنے کی دعوت دی۔اورنہ ہی لوگوں نے یہ کہاکہ : آپ اپنی بیعت لے لیجیے۔ ان دونوں حضرات کا مقام ومرتبہ اس سے بہت زیادہ بلند اور جلیل القدر تھاکہ یہ حضرات کوئی ایسی حرکت کرتے۔
٭ یہی حال حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا بھی تھا۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد کسی ایک نے بھی آپ کی بیعت
|