علی رضی اللہ عنہ منصوص علیہ امام ہیں ۔اور یہ کہ پہلے تین خلفاء کی خلافت باطل تھی۔اور نہ ہی ان میں سے کسی ایک نے یہ کہا: حضرت علی اورحضرت عثمان رضی اللہ عنہمااور جو کوئی ان سے دوستی رکھے ‘ سب کافر ہیں ۔
٭ پھر کسی مدعی کا یہ دعوی کرنا کہ اہل قبلہ کے مابین سب سے پہلے تلوارمسئلہ امامت میں اختلاف کی وجہ سے آویزاں ہوئی؛ یہ ایک کھلا ہوا جھوٹ ہے جو کسی ایک پر بھی مخفی نہیں ۔ان واقعات کا معمولی سا علم رکھنے والا ایک ادنیٰ غوروفکر کے بعد اس جھوٹ کو سمجھ سکتا ہے۔
٭ اس میں کوئی شک و شبہ والی بات نہیں کہ بہت سارے علماء کے نزدیک یہ فتنہ کی جنگیں تھیں ۔اور بہت سارے علماء اسے اہل عدل اوراہل بغاوت کی جنگیں قرار دیتے ہیں ۔یہ ایسی جنگیں تھیں جو غیر امام کی اطاعت پر تأویل کی وجہ سے ہوئیں ۔کسی دینی قاعدہ کی بنیاد پر نہیں تھیں ۔
٭ اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے تنازعہ کرنے والے امامت کے مسئلہ میں اختلاف کرتے اور آپ ان لوگوں سے قتال کرتے تو آپ کا قتال کرنا بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قتال کی جنس سے ہی ہوتا۔ اگرچہ ان لوگوں کے مابین کسی دینی قاعدہ کی بنیاد پر کوئی اختلاف نہیں تھا۔
٭ اسلام میں دینی اختلاف کی بنیا دپر سب سے پہلے جو تلوار اٹھائی گئی وہ خوارج کی تلوار تھی۔اور ان کی جنگ بہت بڑی جنگ تھی۔ان لوگوں نے ایسے عقائد گھڑ لیے تھے جو صحابہ کرام کے عقائد کے خلاف تھے۔ پھر ان کی بنیاد پر انہوں نے جنگیں لڑیں ۔ان کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا: ’’مسلمانوں کی تفرقہ بندی کے وقت ایک فرقہ کا ظہور ہوگا ‘ اور فریقین میں سے ان کو وہ لوگ قتل کریں گے جو حق کے زیادہ قریب ہوں گے۔‘‘[1]
٭ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جنگیں لڑنے والوں میں سے کسی ایک نے بھی امامت کے مسئلہ پر جنگ نہیں لڑی۔ اورنہ ہی آپ نے کسی ایک سے اپنی امامت منوانے کے لیے لڑائی کی۔اورنہ ہی آپ کے عہد میں کسی نے یہ دعوی کیا کہ وہ آپ سے بڑھ کر خلافت و امامت کا حق دار ہے۔نہ ہی حضرت عائشہ ‘ نہ ہی حضرت طلحہ و زبیر ؛ نہ ہی حضرت امیر معاویہ اور ان کے اصحاب رضی اللہ عنہم ؛ اورنہ ہی خوارج نے ایسا کوئی دعوی کیا۔بلکہ تمام امت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت اور سابقت اسلام کا اعتراف کرتی تھی۔ اورآپ کے عہد خلافت میں صحابہ کرام میں کوئی دوسرا فرد ایسا بھی نہیں تھا جو کہ آپ کا ہم پلہ و ہمسر ہو۔جیسا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اپنے دور میں تھے۔اور ایسا بھی ہر گزنہیں ہوا کہ مسلمانوں میں سے کسی ایک نے آپ سے خلافت و امامت کے مسئلہ پر قتال کیا ہو۔ اور نہ ہی دو افراد اس بات میں اختلاف کرنے والے تھے کہ آپ کے علاوہ کوئی دوسرا خلافت کا زیادہ حق دارہے۔چہ جائے کہ کوئی اس بات پر جنگ کرتا۔یہی حال حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہماکا بھی تھا۔
٭ خلاصہ کلام ! جو انسان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے احوال کا علم رکھتا ہے ؛ وہ علم ضروری کے طور پر جانتاہے کہ
|