Maktaba Wahhabi

598 - 702
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارک میں بھی ایسا ہوتا تھا کہ صحابہ کرام کے مابین مراد ِ رسول سمجھنے پر اختلاف ہوجاتا ۔ جیسا کہ صحیحین میں ہے: حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم لوگوں سے فرمایا : ’’تم میں سے کوئی عصر کی نماز نہ پڑھے مگر بنی قریظہ میں پہنچ کر۔‘‘ چنانچہ بعض لوگوں کے راستہ میں ہی عصر کا وقت ہوگیا۔ تو بعض نے کہا کہ ہم نماز نہیں پڑھیں گے جب تک کہ بنی قریظہ تک نہ پہنچ جائیں ۔ان لوگوں نے وہاں پہنچ کر غروب آفتاب کے بعد عصر کی نماز پڑھی ۔اور بعض نے کہا :’’ ہم تو نماز پڑھیں گے؛ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد یہ نہ تھا کہ ہم قضاء کریں ۔ جب اس کا ذکر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا گیا تو آپ نے کسی کو ملامت نہ کی۔‘‘[1] ٭ اور صحیح بخاری میں ہے : ’’بنو تمیم کے سوار[وفد] آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے تو ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی :ان کا امیر قعقاع بن معبد بن زرارہ کو بنایئے ۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: نہیں ؛بلکہ اقرع بن حابس کو بنائیے۔ توحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: تم صرف مجھ سے اختلاف کرنا چاہتے ہو۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میرا مقصد آپ سے اختلاف کرنا نہیں ۔ دونوں میں تکرار ہوئی یہاں تک کہ ان کی آوازیں بلند ہو گئیں ۔ تو اسی بارے میں یہ آیت نازل ہوئی: ﴿ٰٓیاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِی﴾ [الحجرات ۲] ’’اے ایمان والو!اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلندنہ کرو۔‘‘[2] اس واقعہ کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ انتہائی پست آواز میں گفتگو کیا کرتے تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز کا حکم یا اجازت مرحمت فرمایا کرتے تھے پھر اس سے رجوع کرلیتے۔ پس اللہ تعالیٰ اس پہلے حکم کو منسوخ کردیتے۔ جیسا کہ آپ نے حکم دیا تھا کہ ان برتنوں کو توڑ دیا جائے جن میں گدھے کا گوشت پکایا جارہا تھا۔ تو صحابہ نے عرض کیا:کیا یہ ہانڈی بہا نہ دی جائے ؟ تو آپ نے فرمایا : ہانڈیاں بہادو۔‘‘ آپ کے ساتھ ایک سفر میں تھے۔ لوگوں نے سواری کے اونٹ ذبح کرنے کی اجازت طلب کی تو آپ نے اجازت دیدی۔ پھر حضرت عمر خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئے : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !اگر آپ سواری کے اونٹ ذبح کرنے کی اجازت دیں گے تو سواریاں ختم ہوجائیں گی۔ لیکن جو کچھ ان کے پاس باقی بچا ہے آپ اسے جمع کروائیے اور پھر اللہ تعالیٰ سے اس میں برکت کے لیے دعا کریں ۔ تو رسول اللہ نے ایسے ہی کیا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت ہے کہ آپ نے اپنے نعلین مبارک مجھے دے کر فرمایا: ابوہریرہ! میری یہ دونوں جوتیاں (بطور نشانی) کے لے جا اور جو شخص باغ کے باہر دل کے یقین کے ساتھ لا الہ الا اللّٰہ کہتا ہوا ملے اس کو جنت کی بشارت
Flag Counter