یہ روایت حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی منقول ہے۔ اس میں ہے؛رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اے ابو بکر رضی اللہ عنہ ! آپ کی مثال حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح ہے جنہوں نے فرمایا تھا:
﴿ فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّہٗ مِنِّیْ وَ مَنْ عَصَانِیْ فَاِنَّکَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾ [ابراہیم۳۶]
’’پس جو کوئی میری اتباع کرے وہ مجھ سے ہے ‘ اور جو کوئی میری نافرمانی کرے بیشک تو بخشنے والا مہربان ہے ۔‘‘
اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح ہے جنہوں نے فرمایا تھا:
﴿اِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَاِنَّہُمْ عِبَادُکَ وَ اِنْ تَغْفِرْلَہُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ﴾ [المائدۃ۱۱۸]
’’اگر ان کو سزا دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر معاف فرما دے تو تو زبردست حکمت والا ہے۔‘‘
اور اے عمر! آپ کی مثال حضرت نوح علیہ السلام کی طرح ہے جنہوں نے فرمایا تھا:
﴿ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ دَیَّارًا ﴾ [نوح ۲۶]
’’ اے میرے پالنے والے! تو روئے زمین پر کسی کافر کو رہنے سہنے والا نہ چھوڑ۔‘‘[1]
اور حضرت موسی علیہ السلام کی طرح ہے جنہوں نے فرمایا تھا:
﴿ وَ اشْدُدْ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ فَلَا یُؤْمِنُوْا حَتّٰی یَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِیْمَ﴾ [یونس]
’’ ان کے دلوں کو سخت کردے سو یہ ایمان نہ لانے پائیں یہاں تک کہ دردناک عذاب کو دیکھ لیں ۔‘‘
اس معنی میں ایک حدیث حضرت ام سلمہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کے علاوہ دیگر حضرات سے بھی مروی ہے۔‘‘
امام احمد نے مسند میں ابو معاویہ کی حدیث سے روایت کیا ہے؛ اور ابن بطہ نے بھی ہے۔ اور جزء ابن عرفہ میں بھی ابو معاویہ کی سند سے منقول ہے؛ اس کے الفاظ یہ ہیں:
’’جب بدر کا موقع تھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان قیدیوں کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ’’ یا رسول اﷲ !یہ آپ کی قوم و قبیلہ اور خاندان کے لوگ ہیں انھیں زندہ رہنے دیجیے ممکن ہے کہ اﷲان کو توبہ کی توفیق عطا کرے۔‘‘
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:’’ان لوگوں نے آپ کی تکذیب کی اور آپ کو مکہ چھوڑنے پر مجبور کیا، لہٰذا ان
|