کو تہ تیغ کردیجیے۔‘‘[1]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں داخل ہوگئے؛ انہیں کوئی جواب نہ دیا۔جب باہر تشریف لائے؛ تو آپ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے فرمایا: آپ کی مثال سیدنا ابراہیم علیہ السلام جیسی ہے، جنھوں نے فرمایا تھا:
﴿مَنْ تَبِعَنِی فَاِنَّہٗ مِنِّیْ وَ مَنْ عَصَانِیْ فَاِنَّکَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾ (ابراہیم:۳۶)
نیز آپ کی مثال سیدنا عیسیٰ علیہ السلام جیسی ہے جن کا ارشاد ہے:﴿ اِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَاِنَّہُمْ عِبَادُکَ﴾ (مائدۃ:۱۱۸)
پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہو کر فرمایا: آپ کی مثال سیدنا نوح علیہ السلام جیسی ہے، جنھوں نے فرمایا تھا:
﴿رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکَافِرِیْنَ دَیَّارًا﴾ ( نوح:۲۶)
نیز آپ کی مثال سیدنا موسیٰ علیہ السلام جیسی ہے، انھوں نے فرمایا تھا:
﴿ رَبِّ اشْدُدْ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ فَلَا یُؤْمِنُوْا حَتّٰی یَرَوُا الْعَذَابَ الْاَ لِیْمَ﴾ ( یونس:۸۸)
ابن بطہ نے ثابت شدہ اسناد سے زنجی بن خالد کی سند سے اسماعیل بن امیہ سے روایت کیاہے؛ وہ فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا:
’’ اگر تم دونوں ایک بات پر متفق ہوجاؤ تو میں تمہاری مخالفت نہیں کروں گا۔‘‘ [مسند أحمد ۵؍۲۲۸]
سلف صالحین حتی کہ شیعہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تقدیم پر متفق تھے۔
ائمہ سلف کے یہاں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ کی عظمت و فضیلت کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا تھا۔ اس کی حد یہ ہے کہ شیعان علی تک اس سے متفق تھے۔ ابن بطہ اپنے شیخ سے روایت کرتے ہیں جو ابو العباس بن مسروق کے نام سے مشہور ہیں کہ ابواسحاق سبیعی جب کوفہ آئے تو شمر بن عطیہ نے ہمیں تعظیماً کھڑا ہونے کا حکم دیا۔ ابو اسحاق بیٹھ کر ہم سے بات چیت کرنے لگے۔ انھوں نے کہا جب میں کوفہ سے نکلا تھا تو میں نے کوفہ میں ایک شخص بھی ایسا نہیں پایا جو حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہماکی عظمت شان میں شک رکھتا ہو۔ اب میں واپس لوٹا ہوں تو لوگ طرح طرح کی باتیں کر رہے ہیں ۔ اﷲ کی قسم! مجھے کچھ علم نہیں کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں ؟ [2]
|