باقی رہا عذاب الٰہی سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا خوف تو یہ ان کے کمال علم کی دلیل ہے۔ اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿اِنَّمَا یَخْشَ اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَائُ﴾(فاطر:۲۸)
’’’ بندگان الٰہی میں سے اصحاب علم ہی اﷲتعالیٰ سے ڈرتے ہیں ۔‘‘
حدیث میں آیا ہے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے تو رونے کی وجہ سے آپ کے سینہ میں ہنڈیا کی طرح جوش پایا جاتا تھا۔[1] حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سورت نساء تلاوت کی۔جب آپ اس آیت پر پہنچے :
﴿فَکَیْفَ اِذَاجِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ بِشَہِیْدٍ وَّ جِئْنَا بِکَ عَلٰی ھٰٓؤُلَآئِ شَہِیْدًاo﴾۔[النساء۴۱]۔
’’پس کیا حال ہوگا جس وقت کہ ہر امت میں سے ایک گواہ ہم لائیں گے اور آپ کو ان سب پر گواہ بنا کر لائیں گے ۔‘‘
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بس کرو ؛[ ٹھہرجاؤ]؛ اس وقت آپ کی آنکھیں اشکبار ہورہی تھیں ۔[البخاري ۶؍۱۹۶]۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿قُلْ مَا کُنْتُ بِدْعًا مِنْ الرُّسُلِ وَمَا اَدْرِی مَا یُفْعَلُ بِی وَلاَ بِکُمْ﴾[الأحقاف ۹]۔
’’آپ فرما دیجئے!میں کوئی انو کھا پیغمبر نہیں نہ مجھے یہ معلوم ہے کہ میرے ساتھ اور تمہارے ساتھ کیا کیا جائے گا ۔‘‘
صحیح مسلم میں مروی ہے کہ جب حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ قتل کیے گئے تو آپ نے فرمایا:’’ اﷲکا رسول ہونے کے باوجود مجھے معلوم نہیں کہ میرے ساتھ کیا سلوک کیاجائے گا اور تمہارے ساتھ کیا۔‘‘[2]
جامع الترمذی میں حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ میں وہ کچھ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے۔ اور میں وہ باتیں سنتا ہوں جو تم نہیں سنتے۔ آسمان چرچراتا ہے اور چرچرانا اس کا حق ہے۔ اس میں چار انگلی کے برابر بھی ایسی جگہ نہیں ہے کہ وہاں کوئی فرشتہ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں پیشانی رکھ کر سجدہ ریز نہ ہو۔ اللہ کی قسم! اگر تم لوگ وہ کچھ جاننے لگو جو میں جانتا ہوں تو کم ہنستے اور
|