یہ پوری حدیث اس طرح ہے: ’’خارجہ بن زید بن ثابت روایت کرتے ہیں کہ انصار کی ایک عورت ام علاء نے بیان کیا جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی کہ:’’ مہاجرین نے انصار کی تقسیم کا قرعہ ڈالا؛ ہمارے حصہ میں حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ آئے۔ ہم نے ان کو اپنے گھر میں اتارا اور ان کو بیماری لاحق ہوگئی جس میں وفات پائی اور نہلا کر کفن پہنائے گئے؛ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، میں نے کہا:’’ اے ابوالسائب تم پر اللہ کی رحمت ہو تمہارے متعلق میری شہادت ہے کہ اللہ نے تمہیں معزز بنایا۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:’’ تمہیں کیسے پتہ چلا؟ میں نے کہا :’’ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ، پھر کون ہے جس کو اللہ تعالیٰ معزز بنائے گا۔‘‘ آپ نے فرمایا:’’ ان پر موت آئی ہے واللہ میں اس کے لیے خیر کا امیدوار ہوں واللہ میں یقین کے ساتھ نہیں جانتا ہوں حالانکہ میں اللہ کا رسول ہوں کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا۔‘‘ ام علاء نے کہا کہ:’’ واللہ میں نے اس کے بعد کسی کے متعلق کبھی بھی پاک ہونے کی شہادت نہیں دی۔‘‘
زیادہ روتے اور بستروں پر عورتوں سے لذت نہ حاصل کرتے؛ جنگلوں کی طرف نکل جاتے۔ اور اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑاتے ۔‘‘
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :
’’ میں نے تمنا کی کہ کاش! میں ایک درخت ہوتا جو کاٹ دیا جاتا۔‘‘ [جامع ترمذی: ح198]
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿اِِنَّ الَّذِیْنَ ہُمْ مِنْ خَشْیَۃِ رَبِّہِمْ مُشْفِقُوْنَ o وَالَّذِیْنَ ہُمْ بِاٰیٰتِ رَبِّہِمْ یُؤْمِنُوْنَoوَالَّذِیْنَ ہُمْ بِرَبِّہِمْ لاَ یُشْرِکُوْنَ ﴾ [المؤمنون ۵۷۔۵۹]
’’یقیناً جو لوگ اپنے رب کی ہیبت سے ڈرتے ہیں ۔یقیناً جو لوگ اپنے رب کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں ۔ اور جو اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے ۔‘‘
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہمافرماتی ہیں کہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا :
’’کیا یہ وہ لوگ ہیں جو شراب پیتے ہیں اور چوری کرتے ہیں اور خوف رکھتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اے صدیق کی بیٹی! نہیں ؛ بلکہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو روزے رکھتے نماز پڑھتے صدقہ دیتے اور اس بات سے ڈرتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان سے قبول نہ کیا جائے۔‘‘
[جامع ترمذی۵؍۳۲۷؛ ابن ماجہ ۲؍۱۴۰۴]
٭ رہا رافضی کا قول کہ : یہ کافر کے اس قول کی طرح ہے کہ جب وہ کہے گا:
﴿ یٰ۔لَیْتَنِیْ کُنْتُ تُرَابًا ﴾ [النباء۴۰]
’’ میرے لیے کاش!میں مٹی ہو جاتا ۔‘‘
ایسے کہنا رافضی کی جہالت کی نشانی ہے ۔ بیشک کافر بروز قیامت یہ کلمات اس وقت کہے گاجب اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی؛ اور نہ ہی اسے کوئی نیکی نفع دے گی۔ جب کہ دنیا میں اگر کوئی ایسی بات کہتا ہے تو دنیا دار العمل ہے ؛ یہاں پر اللہ تعالیٰ کے خوف کی وجہ سے ایسے کہہ سکتا ہے ‘ اور اس خوف پر اسے ثواب ملے گا۔
حضرت مریم رضی اللہ عنہا نے بھی ایسے کلمات کہے تھے؛ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
|