Maktaba Wahhabi

392 - 702
سے اسے ادا کرنا۔ وگرنہ پھر بنی عدی بن کعب سے مانگنا۔ اگر ان کا مال بھی ناکافی ہو توقریش سے طلب کر لینا۔ اس کے سوا کسی اور سے قرض لے کر میرا قرض ادا نہ کرنا۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں جاؤ اور کہو کہ عمر رضی اللہ عنہ آپ کو سلام کہتا ہے۔ امیرالمومنین نہ کہنا کیونکہ اب میں امیر نہیں ہوں ۔ اور کہنا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ آپ سے اس بات کی اجازت مانگتا ہے کہ اسے اپنے دوستوں یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پہلو میں دفن کیا جائے۔ چنانچہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے پہنچ کر سلام کے بعد اندر آنے کی اجازت چاہی(اجازت ملنے پر) اندر گئے تو ام المومنین رضی اللہ عنہا کو روتے ہوئے دیکھا ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سلام کہتے ہیں ؛ اور اس بات کی اجازت چاہتے ہیں کہ اپنے دوستوں کے پاس دفن کئے جائیں ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:’’ اس جگہ کو میں نے اپنے لیے اٹھا رکھا تھا؛ مگر اب میں ان کو اپنی ذات پر ترجیح دیتی ہوں ۔ جب عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ واپس آئے توحضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : مجھے اٹھاؤ؛ تو ایک شخص نے ان کو اپنے سہارے لگا کر بٹھا دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ: کیا جواب لائے ہو؟ انہوں نے کہا کہ امیرالمومنین وہی جو آپ چاہتے ہیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اجازت دیدی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اللہ کا شکر ہے میں کسی چیز کو اس سے زیادہ اہم خیال نہ کرتا تھا۔ پس جب میں مر جاؤں تو مجھے اٹھانا ؛اور پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو سلام کر کے کہنا : عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اجازت چاہتا ہے؛ اگر وہ اجازت دیدیں تو مجھے اندر لے جانااور اگر وہ واپس کر دیں تو مجھ کو واپس مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کر دینا۔‘‘[صحیح بخاری:ح 914]۔ مذکورہ صدر حدیث سے مستفاد ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورتمام امت حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے راضی ہے،اور آپ کے عدل و انصاف کا اقرار کررہے ہیں ۔اور جب آپ کا انتقال ہوا تو گویا کہ تمام مسلمانوں کو ایسی مصیبت پہنچی جو کہ اس سے پہلے نہ پہنچی ہو۔ اس لیے کہ مسلمان آپ کی بہت زیادہ تعظیم کیا کرتے تھے۔ صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تمہارے بہترین حکمران وہ ہیں جن کو تم چاہتے ہووہ تمہیں چاہتے ہوں تم ان کے لیے دعا کرتے ہو اور وہ تمہارے حق میں ، تمہارے بد ترین حکام وہ ہیں جن سے تم بغض رکھتے ہو اور جو تم سے بغض رکھتے ہوں ، جن پر تم لعنت بھیجتے ہو اور جو تم پر لعنت بھیجتے ہوں ‘‘[ صحیح مسلم ؛حدیث:۱۸۵۵]۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو مسلمانوں میں سے کسی نے قتل نہیں کیا ؛ اس لیے کہ مسلمان تمام آپ پر راضی تھے ۔ آپ کوقتل کرنے والا ایک کافر فارسی مجوسی تھا۔
Flag Counter