صحیح بخاری میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے واقعہ میں ہے‘حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’ ابن عباس! دیکھو تو مجھ پر کون حملہ آور ہوا ہے؟ وہ تھوڑی دیر تک ادھر ادھر دیکھتے رہے، پھر انہوں نے کہا مغیرہ رضی اللہ عنہ کے غلام نے آپ پر حملہ کیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا: کیا اس کاریگر نے؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے جواب دیا جی ہاں ! تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس کو غارت کرے میں نے تو اس کو ایک مناسب بات بتائی تھی ۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے میری موت کسی ایسے شخص کے ہاتھ پر نہیں کی جو اسلام کے پیرو ہونے کا دعوی کرتا ہو ، بلاشبہ تم اور تمہارے والد ماجد اس بات کو پسند کرتے تھے کہ مدینہ منورہ میں غلام بہت ہو جائیں ۔
حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے پاس سب سے زیادہ غلام تھے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر تم چاہو تو میں ایسا کروں ؛ یعنی اگر چاہو تو میں ان کو قتل کر دوں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بولے:’’ تو جھوٹ بولتا ہے کیونکہ جب وہ تمہاری زبان میں گفتگو کرنے لگے اور تمہارے قبلہ کی طرف نماز پڑھنے لگے اور تمہاری طرح حج کرنے لگے، تو پھر تم ان کو قتل نہیں کر سکتے۔
پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ان کے گھر لے جایا گیا۔ لوگوں کے رنج و الم کا یہ حال تھا کہ گویا ان کو اس دن سے پہلے کوئی مصیبت ہی نہ پہنچی تھی۔ کوئی کہتا فکر کی کچھ بات نہیں اچھے ہوجائیں گے۔ اور کوئی کہتا مجھے ان کی زندگی کی کوئی آس نہیں ہے۔ پھر چھواروں کا بھیگا ہوا پانی لایا گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسکو نوش فرمایا، تو وہ ان کے پیٹ سے نکل گیا۔ اس کے بعد دودھ لایا گیا انہوں نے نوش فرمایا تو وہ بھی شکم مبارک سے نکل گیا۔ لوگوں نے سمجھ لیا کہ وہ اب زندہ نہ رہیں گے۔ پھر ہم سب آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، وہاں اور لوگ بھی آ رہے تھے۔ اکثر لوگ آپ کی تعریف کرنے لگے۔ پھر ایک جوان شخص آیا اس نے کہا: اے امیرالمومنین!آپ کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے خوشخبری ہو اس لیے کہ آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اور اسلام قبول کرنے میں تقدم حاصل ہوا جس کو آپ خود بھی جانتے ہیں ۔ جب آپ خلیفہ بنائے گئے تو آپ نے انصاف کیا اور آخرکار شہادت پائی۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :میں چاہتا ہوں کہ یہ سب باتیں مجھ پر برابر ہو جائیں نہ عذاب ہو نہ ثواب۔ جب وہ شخص لوٹا تو اس کا تہبند زمین پر لٹک رہا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس لڑکے کو میرے پاس لاؤ؛ چنانچہ وہ لایا گیا تو آپ نے فرمایا :’’اے بھتیجے اپنا کپڑا اونچا کر کہ یہ بات کپڑے کو صاف رکھے گی اوراللہ تعالیٰ کو بھی پسند ہے۔‘‘
پھر آپ نے اپنے بیٹے عبداللہ سے کہا :دیکھو مجھ پر لوگوں کا کتنا قرض ہے؟ لوگوں نے حساب لگایا۔ تو تقریبا چھیاسی ہزار قرضہ تھا۔ فرمایا: اگر اس قرض کی ادائیگی کے لیے عمر رضی اللہ عنہ کی اولاد کا مال کافی ہو تو انہی کے مال
|