آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نماز کی رکعات کو اس قدر طویل ادا فرمایا کہ جماعت والی کوئی دوسری نماز اس قدر طویل نہیں فرمائی۔ اور آفتاب کے گہنا جانے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز، ذکر، دعا، صدقہ، استغفار او رغلاموں کے آزاد کرنے کا حکم دیا تھا۔[1]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ ’’رب تعالیٰ ان دونوں نشانیوں کے ذریعے اپنے بندوں کو ڈراتے ہیں ‘‘ یہ رب تعالیٰ کے اس ارشاد کی طرح ہے:
﴿وَ مَا نُرْسِلُ بِالْاٰیٰتِ اِلَّا تَخْوِیْفًاo﴾ (الإسراء: ۵۹)
’’اور ہم نشانیاں دے کر نہیں بھیجتے مگر ڈرانے کے لیے۔‘‘
اسی لیے ’’آیات‘‘ کے ظہور پر عموماً نمازیں ادا کرنا مشروع قرار دیا گیا ہے۔ جیسے ستاروں کا ٹوٹنا، زلزلے وغیرہ اور تخویف اسی چیز کے ذریعے ہوتی ہے جو ڈرانے والے شر کا سبب ہو۔ جیسے زلزلہ، آندھی۔ وگرنہ جس چیز کا عدم اور وجود یکساں ہو اس کے ذریعے تخویف حاصل نہیں ہوتی۔پس یہ بھی معلوم ہو گیا کہ کسوف باعث شر ہے۔ پھر کبھی اس سے شر ظاہر بھی ہو جاتا ہے۔ اور کسوف میں بھی وہی قول ہے جو دیگر سارے اسباب کی بابت ہے۔ کہ آیا یہ سبب ہی ہے؟ جیسا کہ جمہور امت کا قول ہے۔ یا پھر یہ محض اقترانِ عادت ہے جیسا کہ جہمیہ کا قول ہے؟
پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسباب شر کے وقوع کے وقت ان عبادات کی خبر دی ہے جن کے ذریعہ ان اسباب شر کو ہٹایا جا سکتا ہے۔ یہ عبادات یا تو اس خیر کو قوی کرتی ہیں جس کا سبب منعقد ہو چکا ہے، یا پھر اس شر کے سبب کو دور کر دیتی ہیں ، یا اس شر کو کمزور کر دیتی ہیں جس کا سبب منعقد ہو چکا ہے۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’دعا اور بلاء ایک دوسرے سے ملتی ہیں تو زمین اور آسمان کے درمیان ایک دوسرے سے جھگڑتی ہیں ۔‘‘[2]
اس بات کا اعتراف فلاسفہ کو بھی ہے۔ لیکن ان کا یہ اعتراف کیا اس بنا پر ہے کہ رب تعالیٰ اس بلا کو اپنی حکمت و قدرت سے ہٹاتا ہے، یا یہ اقرار اس بنا پر ہے کہ قوائے نفسانیہ اثر انداز ہوتے ہیں ؟ اس باب میں ان لوگوں کا یہ اقرار ان کے خودساختہ اصول پر مبنی ہے۔بطلیموس[3] کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کا یہ قول ہے: ’’عبادت گاہوں میں مختلف زبانوں میں آوازوں کا شور افلاکِ مستدیرہ کی گرہوں کو کھول دیتا ہے۔‘‘
|