Maktaba Wahhabi

333 - 702
معنی ہوتاہے اور یہ لوگ اس معنی کو عقل کے معارض قرار دے رہے ہوتے ہیں ہم نے ’’درء تعارض العقل و النقل‘‘ میں جو اس موضوع پر ایک مستقل کتاب ہے، اس مضمون کو شرح و بسط کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔ وہاں ہم نے کتاب و سنت کے بظاہر خلاف عام عقلیات کو ذکر کیا ہے، وہاں ہم نے بتلایا ہے کہ عقل و نقل میں تعارض تب ہی واضح ہوتا ہے جب معقولِ فاسد کا وقوع ہو۔ اہل بدعت کے کلام کا اکثر یہی حال ہوتا ہے۔ یا پھر ایسا تب ہوتا ہے جب کسی غیر شرعی بات کو شرع شریف کی طرف منسوب کر دیا جائے جیسے موضوع حدیث یا فہم فاسد پر کسی نص کی دلالت نہ ہو، یا باطل اجماع کا حوالہ دیا جائے۔ یہیں سے بہت سے لوگوں نے احکام نجومیہ کی مذمت بیان کی ہے۔ بلاشبہ یہ عقل و شرع دونوں کے نزدیک مذموم ہے اور اس میں درستی سے کہیں زیادہ خطا سرزد ہوتی ہے اور جو اپنے تصرفات میں اللہ اور رسول کے احکام سے روگردانی کر کے ان پر اعتماد کرتا ہے وہ دنیا و آخرت میں خسارہ اٹھاتا ہے۔ لیکن ان لوگوں نے ان احکام نجومیہ کے ردّ میں جہمیہ وغیرہ کا طریقہ اختیار کیا ہے۔ وہ یوں کہ ان کا دعویٰ ہے کہ سرے سے علویات کا سفلیات میں کوئی اثر ہی نہیں ہوتا۔ ان لوگوں کا یہ دعوی یا تو جہمیہ کے طریق پر ہے لیکن یہ طریق عاداتِ اقترانیہ[ملی جلی عادات] کی نفی نہیں کرتا۔ اگرچہ سبب اور مسبب اورحکمت کو بھی ثابت نہیں کرتا اور یا ان لوگوں کا یہ دعویٰ عادت کی نفی پر مبنی ہے[یعنی عادت میں ایسا کام نہیں ہوتا]۔ پھر کبھی یہ لوگ افلاک کے مستدیر ہونے میں نزاع کر رہے ہوتے ہیں اور افلاک کی ایک اور ہی شکل ہونے کے دعوے دار ہوتے ہیں ۔ ہم نے اس بارے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں اس بات کو واضح کر دیا ہوا ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور حضرات تابعین عظام رحمہم اللہ وغیرہ علماء مسلمین کے نزدیک افلاک مستدیر ہیں ، جیسا کہ مستند اسانید کے ساتھ ان حضرات سے یہ بات ثابت ہے اور وہ اسانید اپنی جگہ مذکور ہیں ۔ بلکہ متعدد علماء نے جو منقولات میں سب سے زیادہ اس بات پر مسلمانوں کا اجماع نقل کیا ہے۔[1] جیسے ابو الحسین بن منادی،[2] جو امام احمد کے اصحاب میں طبقہ ثانیہ کے علماء میں شمار کیے جاتے ہیں ۔ موصوف نے چار سو کے قریب کتابیں لکھیں ہیں ۔ اسی طرح ابن حزم اندلسی اور ابن جوزی وغیرہ کی بھی یہی رائے ہے۔ کتاب و سنت کی بھی اسی پر دلالت ہے۔ جیسا کہ ’’الاحاطۃ‘‘ میں اس کو مفصل ذکر کر دیا گیا ہے۔[3]
Flag Counter