Maktaba Wahhabi

332 - 702
’’کیا تم اس سے بے خوف ہو گئے ہو جو آسمان میں ہے۔‘‘ ان تینوں مواقع میں سماء سے مراد بلندی ہے۔ پھر یہاں ایک جگہ یہ لفظ چھت وغیرہ کے ساتھ متعین ہوا ہے ۔ تو دوسری جگہ بادلوں کے ساتھ؛ جبکہ تیسری جگہ پورے جہاں سے اوپر کے ساتھ متعین ہو رہا ہے۔ پس﴿ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآئِ مَآئً﴾ (الانعام: ۹۹) میں سماء سے مراد بلندی ہے قطع نظر کسی معین جسم کے۔ لیکن دوسری آیات میں رب تعالیٰ نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ بارش بادلوں سے نازل ہوتی ہے۔ جیسا کہ ارشاد گرامی ہے: ﴿اَفَرَاَیْتُمُ الْمَائَ الَّذِیْ تَشْرَبُوْنَo ئَ اَنْتُمْ اَنزَلْتُمُوْہُ مِنَ الْمُزْنِ اَمْ نَحْنُ الْمُنزِلُوْنَo﴾ (الواقعۃ: ۶۸۔۶۹) ’’پھر کیا تم نے دیکھا وہ پانی جو تم پیتے ہو؟ کیا تم نے اسے بادل سے اتارا ہے، یا ہم ہی اتارنے والے ہیں ؟‘‘ مزن یا سحاب یعنی بادل کو کہتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿اَلَمْ تَرَی اَنَّ اللّٰہَ یُزْجِی سَحَابًا ثُمَّ یُؤَلِّفُ بَیْنَہٗ ثُمَّ یَجْعَلُہٗ رُکَامًا فَتَرَی الْوَدْقَ یَخْرُجُ مِنْ خِلَالِہٖ﴾ (النور: ۴۳) ’’کیا تو نے نہیں دیکھا کہ بے شک اللہ بادل کو چلاتا ہے، پھر اسے آپس میں ملاتا ہے، پھر اسے تہ بہ تہ کر دیتا ہے، پھر تو بارش کو دیکھتا ہے کہ اس کے درمیان سے نکل رہی ہے۔‘‘ الْوَدْقَ یہ مطر یعنی بارش کو کہتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿اَللّٰہُ الَّذِیْ یُرْسِلُ الرِّیٰحَ فَتُثِیْرُ سَحَابًا فَیَبْسُطُہٗ فِی السَّمَآئِ کَیْفَ یَشَآئُ وَ یَجْعَلُہٗ کِسَفًا فَتَرَی الْوَدْقَ یَخْرُجُ مِنْ خِلٰلِہٖ﴾ (الروم: ۴۸) ’’اللہ وہ ہے جو ہوائیں بھیجتا ہے تو وہ بادل کو ابھارتی ہیں ، پھر اسے آسمان میں پھیلا دیتا ہے جیسے چاہتا ہے اور اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے۔ پس تو بارش کو دیکھتا ہے کہ اس کے درمیان سے نکل رہی ہے۔‘‘ اس آیت میں رب تعالیٰ نے اس بات کی خبر دی ہے کہ وہ بادلوں کو آسمان میں پھیلاتا ہے۔ ان آیات سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن میں کہیں بھی ’’سماء‘‘ سے مراد افلاک نہیں ۔ کیونکہ بادل افلاک میں نہیں پھیلائے جاتے بلکہ لوگ خود مشاہدہ کرتے ہیں کہ بادل فضاء میں پھیلتے ہیں اور بسا اوقات آدمی پہاڑ وغیرہ کسی بلند جگہ ہوتا ہے اور وہ اپنے نیچے ان بادلوں کو پھیلتے دیکھتا ہے اور ان سے بارش بھی برس رہی ہوتی ہے۔ جبکہ سورج بادلوں سے اوپر ہے۔ اب رازی میاں خود بھی تو کسی ایک قول پر قائم نہیں رہتے بلکہ یہاں ایک قول کی تائید کرتے ہیں تو وہاں چند اسباب کی بنا پر اس کے مناقض دوسرے قول کی تائید کر رہے ہوتے ہیں ۔ بے شمار لوگ قرآن سے ایسی باتیں بھی سمجھتے ہیں جن پر خود قرآن کی دلالت نہیں ہو رہی ہوتی۔ بلاشبہ وہ ایک فاسد
Flag Counter