ان کے رب نے ان کے ساتھ کسی بھلائی کا ارادہ فرمایا ہے۔‘‘
اس معنی میں سورت فاتحہ کا یہ ارشاد بھی ہے:
﴿صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنo﴾ (الفاتحۃ: ۶)
’’ان لوگوں کے راستے پر جن پر تو نے انعام کیا، جن پر نہ غصہ کیا گیا اور نہ وہ گمراہ ہیں ۔‘‘
۳۔ یا پھر شر کوکسی عموم میں داخل کر کے ذکر کیا جائے گا۔ جیسا کہ ارشاد ہے:
﴿خَالِقُ کُلِّ شَیْئٍ﴾ (الانعام: ۱۰۲) ’’ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے۔‘‘
پس جب رب تعالیٰ کا کوئی اسم خاص ذکر کیا جائے تو اسے خیر کے ساتھ ملا کر ذکر کیا جائے گا۔ جیسے رب تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ میں یہ اسماء ہیں : ضار، نافع، معطی، مانع، خافض، رافع، معز، مدل کہ یہاں دو اسموں کو عموم اور شمول کے ساتھ جمع کیا گیا ہے جو اس کی وحدانیت پر دلالت کرتا ہے اور یہ کہ وہ اکیلا ہی یہ سب افعال کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان دو میں ایک اسم کے ساتھ رب تعالیٰ کو پکارنا جائز نہ ہو گا جیسے صرف ضار، مانع، خافض اور مذل کہہ کر دعا نہ مانگی جائے گی۔ بلکہ دونوں اسماء کو اکٹھا ذکر کیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ رب تعالیٰ کی ہر نعمت اس کا فضل ہے (ناکہ بندے کا استحقاق) اور اس کی ہر سزا عدل ہے (ناکہ ظلم)۔
صحیحین میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’رب تعالیٰ کا داہنا ہاتھ بھرا ہوا ہے۔ خرچ کرنا اس میں کمی واقع نہیں کرتا۔ وہ دن رات فیض بہاتا ہے کیا تم لوگوں نے نہیں دیکھا کہ وہ زمین اور آسمانوں کو پیدا کرنے کے وقت سے خرچ کرتا چلا آ رہا ہے کہ اس قدر خرچ کرنے نے بھی اس کے ہاتھ میں موجود کو کم نہیں کیا؟ اور ترازو (یعنی عدل) اس کے دوسرے ہاتھ میں ہے، پس وہ جھکاتا ہے اور بلند کرتا ہے۔‘‘
پس احسان یہ رب تعالیٰ کے داہنے ہاتھ میں ہے اور عدل اس کے دوسرے ہاتھ میں ہے اور اس کے دونوں ہاتھ داہنے اور مبارک ہیں ۔ جیسا کہ صحیحین کی ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’عدل کرنے والے روزِ قیامت رب تعالیٰ کے حضور رحمان کی داہنی جانب نور کے منبروں پر ہوں گے اور اللہ کے دونوں ہاتھ داہنے ہیں ، جو لوگ کہ اپنے گھر والوں میں اور اپنے ماتحتوں میں عدل کرتے ہیں ۔‘‘[1]
یہ موضوع ایک الگ تفصیل کا متقاضی ہے۔یہاں یہ بتلانا مقصود ہے کہ رب تعالیٰ جب کسی مبغوض اور مکروہ چیز کو ایک ایسی حکمت کی بنا پر پیدا فرماتا ہے جو اسے محبوب اور پسند ہوتی ہے۔ تب وہ اپنی مخلوق کا اسے پیدا کرنے میں ارادہ
|