Maktaba Wahhabi

307 - 702
سے خوش ہوتا ہے اور یہ سب کچھ خود رب تعالیٰ کے اپنے سے محبت کرنے کے تابع ہے۔ لہٰذا جب ایک مومن اللہ کے لیے اس کی کسی مخلوق سے محبت کرتا ہے تو اس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صالحین سے محبت بھی اللہ کے لیے محبت کرنے کے تابع ہو گی۔ تو بھلا خود رب تعالیٰ کو اپنی مخلوقات سے جو محبت ہے، اس کا عالم کیا ہو گا؟! بے شک رب تعالیٰ اپنی مخلوق سے محبت کرتا ہے۔ جو اس کی اپنی محبت کے تابع ہوتی ہے اور اس نے اپنی مخلوقات کو اپنی اس حکمت کے تحت پیدا فرمایا ہے جو اسے محبوب ہے۔ رب تعالیٰ نے جو چیز بھی پیدا فرمائی ہے، کسی حکمت کے لیے پیدا فرمائی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اَحْسَنَ کُلَّ شَیْئٍ خَلَقَہٗ﴾ (السجدۃ: ۷) ’’اچھا بنایا ہر چیز کو جو اس نے پیدا کی۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿صُنْعَ اللّٰہِ الَّذِیْٓ اَتْقَنَ کُلَّ شَیْئٍ﴾ (النمل: ۸۸) ’’اس اللہ کی کاری گری سے جس نے ہر چیز کو مضبوط بنایا۔‘‘ رب تعالیٰ کے اسماء میں سے جو بھی ہے، وہ لائق حمد ہے۔ اسی لیے رب تعالیٰ کے سب اسماء ’’حسنیٰ‘‘ ہیں اور ’’حسنیٰ‘‘ کا لفظ یہ ’’سُوأی‘‘ (بدی اور برائی) کے خلاف ہے۔ پس رب تعالیٰ کے سب نام حسنہ ہیں اور حسن یہ محبوب اور ممدوح ہوتا ہے۔ پس خلق اور پیدائش سے مقصود وہ چیز ہے جو اسے محبوب اور پسند ہے اور یہ ایک ممدوح امر ہے۔ لیکن کبھی اس کے لوازم میں سے وہ چیز ہوتی ہے جو اس کی مراد ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ اس کے محبوب چیز کے لوازم اور وسائل میں سے ہوتی ہے کیونکہ لازم کے بغیر ملزوم کا وجود ناممکن ہے۔ جیسا کہ حیات کے بغیر علم اور ارادہ کا وجود ممتنع ہے اور مولود کا مولود ہونے کے اعتبار سے بغیر ولادت کے وجود ممتنع ہے۔ ایک صحیح حدیث ۔حدیث استفتاح۔ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’اور خیر ساری کی ساری تیرے ہاتھ میں ہے اور شر تیری طرف (منسوب) نہیں ہے۔‘‘ اس کی تفسیر میں ایک قول یہ ہے کہ اس بنا پر کہ یہ اعمال منہی عنہ ہیں ، اس کے ذریعے تیرا قرب حاصل نہیں کیا جا سکتا اور ایک قول یہ ہے کہ مخلوق ہونے کی بنا پر ان کی نسبت تیری طرف نہ کی جائے گی۔ لہٰذا نرے شر کو جو مخلوق ہے اس کی خیر سے خالی کر کے رب تعالیٰ کی طرف کبھی نسبت نہ کی جائے گی۔ شر کو ان تین صورتوں میں سے کسی ایک صورت کے ساتھ ذکر کیا جائے گا۔ ۱۔ یا تو مخلوق کی طرف نسبت کر کے، جیسا کہ رب تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَo﴾ (الفلق: ۲) ’’اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی۔‘‘ ۲۔ یا پھر فاعل کو حذف کر کے، جیسے ارشاد ہے: ﴿وَاَنَّا لَا نَدْرِی اَشَرٌّ اُرِیْدَ بِمَنْ فِی الْاَرْضِ اَمْ اَرَادَ بِہِمْ رَبُّہُمْ رَشَدًاo﴾ (الجن: ۱۰) ’’اور یہ کہ بے شک ہم نہیں جانتے کیا ان لوگوں کے ساتھ جو زمین میں ہیں ، کسی برائی کا ارادہ کیا گیا ہے، یا
Flag Counter