Maktaba Wahhabi

309 - 702
کرنے والا ہوتا ہے۔ اگرچہ اس نے بعض مخلوق ایسی بھی پیدا کی ہے جو اسے مبغوض اور ناپسند ہے۔ محبت اور مشیت کے درمیان یہی وہ فرق ہے جو اسلاف، محدثین اور فقہاء کا مذہب ہے اور یہی اکثر اہل سنت متکلمین حنفیہ اور کرامیہ کا اور متقدمین حنابلہ، مالکیہ اور شافعیہ کا بھی مذہب ہے۔ جیسا کہ ابوبکر عبدالعزیز نے اپنی کتاب ’’المقنع‘‘ میں ذکر کیا ہے اور یہ اشعری کے دو اقوال میں سے ایک ہے۔ اسی پر ابن جوزی کا اعتماد ہے اور انھوں نے قائل کے اس قول پر کہ ’’وہ مومن کے لیے فساد کو محبوب نہیں رکھتا اور دین کی بنا پر اسے محبوب ہی رکھتا ہے۔‘‘ ائمہ اسلاف کے مذہب کو راجح قرار دیا ہے۔ ابو المعالی نے ذکر کیا ہے کہ یہ اسلاف کا قول ہے اور اہل اثبات میں سے سب سے پہلے جس نے ان دونوں باتوں کو ایک قرار دیا ہے، وہ ابو الحسن ہیں ۔ جن کا یہ قول ہے کہ یہ مالکیہ، شافعیہ اور حنبلیہ کے متاخرین جیسے ابو المعالی اور قاضی ابو یعلی وغیرہ کا قول ہے تو وہ لوگ اس باب میں اشعری کے تابع ہیں ۔ اس فرق سے یہ بات بھی عیاں ہو گئی کہ ارادہ کی دو قسمیں ہیں : (۱) کسی مخلوق کی تخلیق کا ارادہ (۲) اور اپنے امر کرنے کا ارادہ۔ رہا مامور بہ تو وہ ارادۂ شرعیہ دینیہ کے ساتھ مراد ہے جو اس بات کو متضمن ہے کہ وہ اپنے امر سے محبت بھی کرتا ہے اور اسے پسند بھی کرتا ہے۔ یہی ہمارے اس قول کا معنی بھی ہے کہ ’’وہ اپنے بندے سے ارادہ کرتا ہے۔‘‘ سو وہ اس امر کو اپنے بندے سے یوں چاہتا ہے جیسے ایک خیرخواہ آمر اپنے منصوح مامور سے چاہتا ہے اور اسے کہتا ہے: ’’یہ تیرے لیے بہتر ہے اور زیادہ نافع ہے۔‘‘ چنانچہ جب بندہ وہ کام کر لیتا ہے تو رب تعایلٰ اسے محبوب رکھتے ہیں اور پسند کرتے ہیں اور مخلوقات ارادہ خلقیہ کونیہ کے تحت مراد ہیں اور یہ ارادہ واقعہ ہونے والی مخلوقات کو تو متضمین ہے لیکن غیر واقع کو متضمن نہیں اور کبھی ایک چیز رب تعالیٰ کی مراد تو ہوتی ہے لیکن اسے محبوب نہیں ہوتی بلکہ وہ اس چیز کا محبوب کے وجود تک یا اس کے وجود کی شرط تک پہنچانے کے لیے ارادہ کرتا ہے۔ اس ارادہ خلقیہ کا ذکر اس ارشاد باری تعالیٰ میں ہے: ﴿فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ اَنْ یَّہْدِیَہٗ یَشْرَحْ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ وَمَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّہٗ یَجْعَلْ صَدْرَہٗ ضَیِّقًا حَرَجًا﴾ (الانعام: ۱۲۵) ’’تو وہ شخص جسے اللہ چاہتا ہے کہ اسے ہدایت دے، اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے کہ اسے گمراہ کرے اس کا سینہ تنگ، نہایت گھٹا ہوا کر دیتا ہے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَ لَا یَنْفَعُکُمْ نُصْحِیْٓ اِنْ اَرَدْتُّ اَنْ اَنْصَحَ لَکُمْ اِنْ کَانَ اللّٰہُ یُرِیْدُ اَنْ یُّغْوِیَکُمْ ہُوَ رَبُّکُمْ﴾ (ہود: ۳۴) ’’اور میری نصیحت تمھیں نفع نہ دے گی اگر میں چاہوں کہ تمھیں نصیحت کروں ، اگر اللہ یہ ارادہ رکھتا ہو کہ تمھیں گمراہ کرے، وہی تمھارا رب ہے۔‘‘
Flag Counter