Maktaba Wahhabi

300 - 702
نہ دیتے ہوتے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَ جَعَلُوْا لِلّٰہِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الْحَرْثِ وَ الْاَنْعَامِ نَصِیْبًا فَقَالُوْا ہٰذَا لِلّٰہِ بِزَعْمِہِمْ وَ ہٰذَا لِشُرَکَآئِنَا فَمَا کَانَ لِشُرَکَآئِہِمْ فَلَا یَصِلُ اِلَی اللّٰہِ وَ مَا کَانَ لِلّٰہِ فَہُوَ یَصِلُ اِلٰی شُرَکَآئِہِمْ سَآئَ مَا یَحْکُمُوْنَo﴾ (الانعام: ۱۳۶) ’’اور انھوں نے اللہ کے لیے ان چیزوں میں سے جو اس نے کھیتی اور چوپاؤں میں سے پیدا کی ہیں ، ایک حصہ مقرر کیا، پس انھوں نے کہا یہ اللہ کے لیے ہے، ان کے خیال کے مطابق اور یہ ہمارے شریکوں کے لیے ہے، پھر جو ان کے شرکا کے لیے ہے سو وہ اللہ کی طرف نہیں پہنچتا اور جو اللہ کے لیے ہے سو وہ ان کے شریکوں کی طرف پہنچ جاتا ہے۔ برا ہے جو وہ فیصلہ کرتے ہیں ۔‘‘ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے احد کے دن یہ کہا تھا: ’’ہبل بلند وہ، ہبل بلند ہو۔‘‘ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’تم انھیں جواب کیوں نہیں دیتے؟‘‘ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: ہم کیا جواب دیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم یہ کہو ’’اللہ سب سے بلند اور سب سے بزرگ ہے۔‘‘ اس پر ابوسفیان رضی اللہ عنہ کہنے لگے: ہمارے پاس عزیٰ ہے، تمھارا کوئی عزیٰ نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم انھیں جواب کیوں نہیں دیتے؟ صحابہ نے عرض کیا: ہم کیا جواب دیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم کہو: اللہ ہمارا مولی ہے، تمھارا کوئی مولیٰ نہیں ۔‘‘[1] بہت سارے لوگ بتوں کے نام کی قسمیں اٹھاتے ہیں ، ان کے نام کی نذریں مانتے ہیں ، ان کی محبت اور بغض میں دوسروں سے محبت اور بغض رکھتے ہیں ۔ پھر ان کی قسم اٹھاتے ہوئے جھوٹ بھی نہیں بولتے اور ان کے نام کی نذروں کو پورا بھی کرتے ہیں ۔ حالانکہ یہی لوگ اللہ کی نام کی قسم میں جھوٹ بھی بول جاتے ہیں اور اس کے نام کی نذریں بھی توڑ دیتے ہیں اور نہ اللہ کے لیے ایسی محبت اور نفرت کرتے ہیں جیسی محبت اور نفرت ان بتوں کے لیے کرتے ہیں ۔ پس جو بھی یہ کہتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی محبت میرے دل میں ان کے ماسوا کی محبت سے زیادہ نہیں تو دو میں سے ایک بات لازم ہے، یا تو وہ اس بات میں سچا ہو گا تو کافر اور مخلد فی النار اور ان لوگوں میں سے ہو گا جنھوں نے اللہ کو چھوڑ کر اور معبود بنا لیے تھے اور ان سے اللہ کے ساتھ محبت جیسی محبت کرتے تھے۔ یا پھر وہ اپنی اس بات میں مبنی برغلط ہو گا۔ بسا اوقات بندے کے دل میں ایسے معارف و ارادات ہوتے ہیں جن کی اسے خبر بھی نہیں ہوتی۔ پس دل میں کسی چیز کا وجود ایک چیز ہے۔ جبکہ اس کا ادراک ایک دوسری چیز ہے۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ان میں کا ایک اس بات کو دل میں حاصل کرنے میں لگا ہوتا ہے حالانکہ وہ بات اس کے دل میں پہلے سے موجود ہوتی ہے اور وہ اپنی جہالت کی وجہ سے بڑی مشقت اٹھاتا ہے۔ یہ نماز میں وسوسہ کھانے والے کے جیسا ہے۔ کیونکہ جو بھی ایک فعل اپنے اختیار سے کرتا ہے اور وہ اپنے فعل کو جانتا بھی ہے تو لازما کہ وہ اس کی نیت بھی کرے گا۔ پس نیت یعنی ارادہ ے بغیر اس کا وجود ممتنع ہے پس جو
Flag Counter