جانتا ہے کہ وہ کھڑا نماز پڑھ رہا ہے۔ تو اس کا ارادہ نماز کا ہی ہے۔ اس سے اس بات کا تصور ممکن نہیں کہ وہ بغیر ارادہ کے نماز میں کھڑا ہے۔ لہٰذا ایسے آدمی کا نیت کے حصول کی طلب کرنا اس کی جہالت ہے یعنی وہ اپنے جی میں نیت کے وجود اور اس کی حقیقت سے جاہل ہے۔
اسی طرح جو جانتا ہے کہ کل رمضان ہے اور وہ مسلمان اور روزے کے وجوب کا اعتقاد رکھتا ہے اور وہ روزے کا ارادہ کرنے والا ہے۔ پس یہی روزے کی نیت ہے اور جب وہ رات کا کھانا کھات ہے تو وہ روزہ کا ارادہ کرنے والے کی طرح کھانا کھاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عید کی رات کھانا کھانے والے میں اور روزوں کے دنوں میں رات کا کھانا کھانے والے میں فرق ہے۔ کیونکہ عید کی رات معلوم ہے کہ کل روزہ نہیں ۔ لہٰذا نہ تو اس کا روزہ کا ارادہ ہوتا ہے اور نہ اس کی نیت ہی ہوتی ہے اور نہ وہ روزہ کا ارادہ کرنے والے کے جیسا رات کا کھانا کھاتا ہے۔
اس کی مثال وہ شخص ہے جو کھاتا پیتا اور چلتا ہے، لباس پہنتا ہے اور سوایر کرتا ہے۔ جبکہ وہ جانتا ہے کہ وہ یہ افعال کر رہا ہے۔ تو لامحالہ ان کا ارادہ بھی کرنے والا ہو گا اور یہی ارادہ ہی تو اس کی نیت ہے۔ پس اگر وہ اپنی زبان سے کہتا ہے: میں اس برتن میں ہاتھ ڈال کر ایک لقمہ لے کر کھانے کا ارادہ کرتا ہوں تو وہ لوگوں کے نزدیک احمق سبمجھا جائے گا۔ اب جو نماز، طہارت اور صوم وغیرہ کی طاعات میں اس قسم کے الفاظ ادا کرتا ہے، وہ بھی ویسا ہی احمق ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود ہم بے شمار وسواسیوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ ان امور عبادیہ میں بے پناہ مشقت اٹھاتے ہیں اور اس نیت کے حصول کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ۔ بلکہ یہ معدے کی گہرائیوں سے زور مار کر قے کرنے والوں یا کڑوی دوائی کھانے والوں سے بھی زیادہ زور لگاتے نظر آتے ہیں ۔
اسی طرح بے شمار معارف ایسے ہیں جو نفس انسان میں ضروری اور فطری طور پر موجود ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی وہ اس کی دلیل مانگ رہا ہوتا ہے تاکہ جی میں پائی جانے والی اس بات سے اعراض کر سکے اور شعور ہونے کے باوجود بے شعوری کا مظاہرہ کر سکے۔
اسی طرح بے شمار مومن ہیں جن کے دل اللہ اور اس کے رسول کی محبت سے بھرے ہوتے ہیں لیکن جب وہ محبت کی نفی کرنے والے جہمیہ اور معتزلہ کے کلام پر ایک نظر ڈالتا ہے تو ان کے کلام کو صحیح اعتقاد کر بیٹھتا ہے کیونکہ وہ ان لوگوں کے شبہات کو صحیح سمجھ بیٹھتا ہے۔ یا محض ان کی تقلید میں انھیں صحیح باور کر لیتا ہے۔ چنانچہ وہ اس اعتقاد کے موجب کا قائل ہو کر دل کی بات کا منکر ہو جاتا ہے۔
کیونکہ محبت الٰہی کی نفی کرنے والے کہتے ہیں : محبت اسی بات کی وجہ سے کی جاتی ہے جو محبوب کے مناسب ہو، اب حادث اور قدیم میں ، واجب اور ممکن میں اور خالق اور مخلوق میں کوئی مناسبت ہے ہی نہیں ۔
اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ لفظ ’’مناسبت‘‘ یہ مجمل ہے۔ کیونکہ یہ بھی کہتے ہیں : فلاں اور فلاں میں کوئی مناسبت نہیں ۔ اسی طرح ’’فلاں کے علم، سخاوت یا حکومت سے فلاں کے علم، سخاوت یا حکومت کو کوئی مناسبت نہیں ۔‘‘ مراد یہ ہوتی ہے کہ
|