ہیں : ’’جسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے، وہ اس کا ذکر بھی بہت زیادہ کرتا ہے۔‘‘
مومن بندہ اپنے مقاصد کے حصول میں اللہ کا محتاج ہے اور وہ اپنے دل میں اللہ کی محبت کو اس جذبہ کے علاوہ صورت میں پاتا ہے، وہ رب تعالیٰ کا اس لیے محتاج ہے کہ وہ اس کا رب ہے اورالٰہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ایاک نعبد و ایاک نستعین‘‘ لہٰذا بندہ ضرور اللہ کی عبادت گزار بھی ہو گا اور اس سے مدد و اعانت کا طلب گار بھی ہو گا۔ اسی لیے ہر مومن پر نماز میں ان کلمات کے ساتھ دعا مانگنے کو فرض کر دیا گیا۔
پھر یہ کلمہ اللہ اور بندے کے درمیان ہے۔ حسن بصری رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ رب تعالیٰ نے ۱۰۶ کتابیں نازل فرمائی ہیں پھر ان سب کے راز کو چار میں جمع فرما دیا۔ پھر چار کے راز کو قرآن میں اکٹھا کر دیا۔ پھر پورے قرآن کے راز کو سورۂ فاتحہ میں جمع کر دیا۔ پھر سورۂ فاتحہ کے راز کو ان دو کلمات ’’ایاک نعبد و ایاک نستعین‘‘ میں جمع کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ رب تعالیٰ نے اس بات کو قرآن کریم میں متعدد مواقع پر دہرایا ہے۔ چنانچہ فرمایا:
﴿فَاعْبُدْہُ وَ تَوَکَّلْ عَلَیْہِ﴾ (ہود: ۱۲۳)
’’سو اس کی عبادت کر اور اس پر بھروسا کر۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَ اِلَیْہِ اُنِیْبُo﴾ (ہود: ۸۸)
’’میں نے اسی پر بھروسا کیا اور میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں ۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَ اِلَیْہِ مَتَابِ﴾ (الرعد: ۳۰)
’’اسی پر میں نے بھروسا کیا اور اسی کی طرف میرا لوٹنا ہے۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًاo وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَہُوَ حَسْبُہٗ﴾ (الطلاق: ۲۔۳)
’’اور جو اللہ سے ڈرے گا وہ اس کے لیے نکلنے کا کوئی راستہ بنا دے گا۔ اور اسے رزق دے گا جہاں سے وہ گمان نہیں کرتا اور جو کوئی اللہ پر بھروسا کرے تو وہ اسے کافی ہے۔‘‘
غرض قرآن کریم میں اس جیسی آیات بے شمار ہیں ۔
اب یہ لوگ رب تعالیٰ کی محبت کی تاویل عبادت و طاعت سے محبت کے ساتھ کرتے ہیں ۔
ان لوگوں سے یہ کہا جائے گا کہ فطری طور پر یہ بات ممتنع ہے کہ ایک انسان اپنے مطاع کی طاعت و عبادت سے محبت کرے مگر جب ہی جب وہ اللہ سے محبت کرنے والا ہو، وگرنہ جس کی ذات سے محبت نہ ہو، آدمی اس کی طاعت و
|