Maktaba Wahhabi

296 - 702
قاضی ابوبکر، قاضی ابو یعلی وغیرہ جہمیہ کے موافق ہیں کہ اللہ کی ذات محبوب نہیں اور وہ اپنی ذات سے محبت نہیں کرتا۔ جہمیہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ قول کر کے دراصل ہم صوفیہ کے ساتھ اختلاف کر رہے ہیں ۔ بلاشبہ یہ قول جہم میں صفوان کی باقیات میں سے ہے۔ اسلام میں رب تعالیٰ کے محب یا محبوب ہونے کا انکار کرنے والا یہ پہلا شخص جہم بن صفوان اور اس کا شیخ جعد بن درہم تھا۔ اسی طرح جنابِ موسیٰ علیہ السلام کے کلیم اللہ ہونے کا اسلام میں پہلا منکر بھی یہی تھا۔ جہم صفات و اسماء کی نفی کرتا تھا۔ پھر ان میں سے کوئی معتزلہ کی طرف پلٹ گیا۔ چنانچہ اس نے صفات کی تو نفی کی البتہ اسماء کی نفی سے گریز کی۔ یاد رہے کہ امت کے ائمہ و اسلاف میں سے کسی کا بھی یہ قول نہیں ۔ بلکہ سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رب تعالیٰ محبوب ہونے کا مستحق ہے اور رب تعالیٰ سے بڑھ کر محبوب ہونے کی مستحق کوئی بھی چیز نہیں ۔ بلکہ اللہ کے سوا ہر چیز اس بات کی مستحق ہے کہ وہ غیر محبوب ہو، ہاں اللہ کی وجہ سے کوئی چیز محبوب ہو تو ہو۔ لہٰذا بندہ لباس پوشاک اور طعام و شراب میں سے جو چیز بھی محبوب رکھتا ہے تو چاہیے کہ صرف اسی لیے محبوب رکھے کہ وہ ان چیزوں سے رب تعالیٰ کی عبادت پر، جو اس کی محبت کو متضمن ہوتی ہے، استعانت لے گا۔ کیونکہ رب تعالیٰ نے مخلوق کو صرف اپنی عبادت کے لیے ہی پیدا کیا ہے اور ان میں شہوات کو اس لیے پیدا فرمایا ہے تاکہ وہ ان میں ان شہوتوں کو اپنائیں جو اس کی عبادت میں معین و مددگار ثابت ہوں اور جو اللہ کی عبادت نہیں کرتا وہ برباد اور ہلاک ہے۔ اللہ شرک کو اور اپنے ساتھ غیر کی عبادت کو کبھی معاف نہ کرے گا۔ تو بھلا جو اس کی عبادت کو معطل ہی کر بیٹھے جیسے فرعون اور اسی جیسے لوگ تو ان کا کیا حال ہو گا؟ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآئُ﴾ (النساء: ۴۸) ’’بے شک اللہ اس بات کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک بنایا جائے اور وہ بخش دے گا جو اس کے علاوہ ہے، جسے چاہے گا۔‘‘ تعطیل بھی شرک سے کم نہیں ۔ بلکہ اس سے بھی بڑی بری چیز ہے۔ لہٰذا جو اللہ کی عبادت کرنے سے کنیاتے، کتراتے اور تکبر کرتے ہیں وہ دوسروں کو شریک کر کے اس کی عبادت کرنے والوں سے بھی زیادہ بڑے مجرم ہیں ۔ تو اللہ ان شرک کرنے والو کو نہ بخشے گا تو ان سرے سے عبادت ہی نہ کرنے والوں کو تو بدرجۂ اولیٰ نہ بخشے گا۔ اب جو بھی مومن ہے، اس کے جی میں اللہ کی محبت ہے، چاہے وہ زبان سے اس کا انکار بھی کرتا ہو۔ اب اہل کلام میں سے، مومن ہونے کے باوجود اللہ کی محبت کا انکار کرنے والے اگر اپنی خلقی فطرت کی طرف لوٹ آئیں اور اللہ کی عبادت کے وقت اپنے دلوں کے احوال سے عبرت حاصل کریں ، تو وہ اپنے دلوں میں رب تعالیٰ کی ایسی محبت پائیں گے جو اس کی قدرت کے علاوہ ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ لوگ دوسروں سے کہیں زیادہ اس کے علم، اس کی صفات اور اس کے ذکر میں نظر و فکر اور غور و تدبر کرنے والے ہوتے ہیں اور یہ باتیں اللہ محبت ہی تو ہیں ۔ وگرنہ جو ذات محبوب نہ ہو، بھلا نفس اس کے ذکر کا حریص کیونکر ہو گا اور ذکر تب ہی کرے گا جب اس سے کوئی حاجت وابستہ ہو۔ اسی لیے تو کہتے
Flag Counter