Maktaba Wahhabi

274 - 702
جو کرتا ہے؛ اپنی مرضی سے بغیر کسی سبب کے کرتا ہے۔ شیخ فرماتے ہیں : ’’عقلی منازعاتِ اورمشاہداتی تعلق سے بالا تر ہونا یہ ہے کہ بندہ توحید میں کوئی دلیل نہ دے؛ اور نہ توکل میں کسی سبب کو اختیار کرے؛ اور نہ ہی نجات کا کوئی وسیلہ ۔ اس لیے کہ ان لوگوں کے نزدیک وجود میں کوئی چیز سرے سے دوسری چیز کا سبب نہیں ۔ نہ کوئی چیز کسی دوسری چیز کے لیے بنائی گئی ہے ور نہ کوسی کسی دوسرے چیز کی وجہ سے ہے۔ چنانچہ: ٭ ....ان کے نزدیک شکم سیری کھانے کی وجہ سے نہیں ، ٭ ....دل میں حاصل ہونے والا علم کسی دلیل سے نہیں ، ٭ ....اور نہ متوکل کو حاصل ہونے والے رزق اور مدد کا کوئی سبب ہے۔ نہ اس میں اور نہ نفس امر میں ، ٭ ....ان کے نزدیک اطاعت سبب ثواب اور معاصی سبب عقاب نہیں ۔ لہٰذا نجات کے لیے کسی وسیلہ کی ضرورت نہیں ہے بلکہ صرف ایک ارادہ سے ہر حادث کا صدور ہوتا ہے اور دوسرے ارادہ سے جو پہلے عادی طور پر ملا ہوتا ہے، اس سے بھی حادث کا صدور ہوتا ہے، ناکہ یہ بات ہے کہ ایک صدور دوسرے کے معلق ہوتا ہے یا اس کا سبب یا اس کی حکمت ہوتا ہے بلکہ بطور عادت کے ایک صدور دوسرے صدور سے ملا ہوتا ہے اور ایک صدور کو دوسرے کی امارت و علامت اور اس پر دلیل ٹھہرایا جاتا ہے۔ بایں معنی کہ جب دو عادۃً ملی ہوئی اشیائے حادثہ میں سے ایک پائی جاتی ہے تو دوسری اس کے ساتھ موجود ہوتی ہے اور دل میں حاصل ہونے والا علم اس دلیل سے حاصل نہیں ہوتا۔ بلکہ یہ بھی جملہ اقتراناتِ عادیہ میں سے ایک ہے۔ اسی لیے کہا: لہٰذا وہ مشاہد ہو گا کہ حق اپنے حکم اور علم سے اس سے سابق سے ’’یعنی وہ اس بات کا مشاہدہ کر رہا ہے کہ اس نے ایک ایسی بات جانی ہے جو آگے چل کر ہو گی اور وہ اس کا حکم دے گا۔ یعنی اس نے اس بات کا ارادہ کیا اس کا فیصلہ کیا اور اسے لکھ لیا۔ ان لوگوں کے پاس سوائے فلسفہ کے اور کوئی بات نہیں ۔ اس مذہب کے اکثر قائلین دنیوی اسباب کے تارک ہوتے ہیں ۔ ان کے نزدیک سبب کا وجود اور عدم دونوں ایک ہیں ۔ پھر ان میں سے بعض نے اخروی اسباب کو بھی ترک کر دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’اگر تو اس بات کا علم اور حکم ہو چکا کہ ہم سعید ہیں تو ہم سعید ہیں اور اگر یہ بات سابق ہے کہ ہم شقی ہیں تو ہم شقی ہیں ۔ لہٰذا عمل کرنا بے سود ہے۔ ان میں سے بعض نے اس فاسد اصل کی بنا پر دعا مانگنا چھوڑ دی۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ان لوگوں کی یہ اصل کتاب و سنت کے اور اسلاف اور ائمہ دین کے اجماع کے مخالف ہے اور صریح معقول اور حس و مشاہدہ کے بھی خلاف ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جب تقدیر کو دیکھتے ہوئے اسباب کو ترک کر دینے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو ردّ فرمایا، جیسا کہ صحیحین میں ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’تم میں سے جو بھی کہے مگر یہ
Flag Counter