Maktaba Wahhabi

273 - 702
پھر یہ لوگ اس عقیدہ میں قدریہ کے ہمنوا ہیں کہ رب تعالیٰ کی مشیت و ارادہ اور محبت و رضا یکساں ہے۔ پھر منکرین تقدیر اس بات کے قائل ہیں کہ رب تعالیٰ کفر، عصیان اور فسق سے محبت نہیں کرتا، نہ تو وہ اس کا ارادہ کرتا ہے اور نہ اسے چاہتا ہی ہے۔تو رب تعالیٰ کی حکومت اور بادشاہی میں ایسی باتیں بھی وجود میں آتی ہیں جن کو وہ نہیں چاہتا ۔ جہمیہ جبریہ کا عقیدہ ہے کہ:’’ایسا نہیں ؛ بلکہ وہ ہر چیز کو چاہتا ہے اور اس نے ان کا ارادہ بھی کیا ہے، ان سے محبت بھی کی ہے اور ان سے راضی بھی ہے۔ جبکہ حضرات سلف صالحین رحمہم اللہ اور ان کے پیروکار رب تعالیٰ کی مشیت اور محبت میں فرق کرتے ہیں ۔ رہا ارادہ تو کبھی وہ مشیت کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی محبت کے معنی میں ہوتا ہے۔ اشعری نے قائلین تقدیر اہل سنت سے دو قول نقل کیے ہیں : ۱۔ ایک ان لوگوں کا قول جو محبت اور رضا میں فرض کرتے ہیں ۔ ۲۔ اور دوسرا ان لوگوں کا قول جو ان دونوں باتوں کو برابر قرار دیتے ہیں ۔ پھر اشعری نے ان دو میں سے دوسرے قول کو اختیار کیا ہے۔جبکہ ابو المعالی کہتے ہیں کہ:’’ ابو الحسن نے ان دونوں باتوں کو برابر قرار دینے والے لوگوں کے قول کی تاویل کی ہے۔ لیکن میں نے ’’الموجَز‘‘ میں خود پڑھا ہے کہ ابوالمعالی نے سلیمان بن حرب، ابن کلاب، کرابیسی اور داؤد بن علی سے اشعری کا قول حکایت کیا ہے۔ اس طرح ابن عقیل کہتے ہیں : ’’مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ رب تعالیٰ کفر، فسق اور عصیان سے محبت نہیں کرتا۔ اور اشعری کے علاوہ کسی نے نہیں کہا کہ:’’ رب تعالیٰ ان باتوں سے محبت رکھتا ہے ۔‘‘ جبکہ قاضی ابو یعلی رحمہ اللہ نے ’’المعتمد‘‘ میں اشعری کی موافقت کی ہے۔ اور ’’المختصر‘‘ میں دو اقوال ذکر کیے ہیں ۔ اور’’المعتمد‘‘ میں ابوبکر عبدالعزیز کا قول نقل کیا ہے کہ وہ فرق کے قائل ہیں ۔اور انھوں نے ابوبکر کے کلام کی باطل تاویل کی ہے۔ لیکن سب کے سب مذاہب والے اس بات پر متفق ہیں کہ رب تعالیٰ اطاعت پر ثواب اور معاصی پر سزا دیتے ہیں ۔ اگرچہ رب تعالیٰ کی مشیت طاعت و معاصی دونوں کو شامل ہوتی ہے۔ اور وہ فرق کو بندوں کے اعتبار سے تسلیم کرتے ہیں ۔ اور حقیقت و معرفت کے مدعی اور ان میں فنا کی بات کرنے والوں سے طلب کرتے ہیں کہ ان کی کوئی مراد نہ ہو، بلکہ ان کی مراد وہی ہے جو حق تعالیٰ کی مراد ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ:’’ کمال یہ ہے کہ تو اپنے ارادہ کو فنا کر دے اور صرف اپنے رب کی ارادہ کے ساتھ باقی رہے۔‘‘ ان کے نزدیک ساری کی ساری کائنات رب تعالیٰ کی طرف نسبت کے اعتبار سے ایک ہے پس نہ تو ان کے نزدیک کوئی چیز اچھی ہے اور نہ کوئی چیز بری۔ان لوگوں کی یہ بات اگر عقلاً ممتنع ہے تو شرعاً بھی حرام ہے۔ یہاں پر مقصود ان لوگوں کا عقیدہ بیان کرنا ہے۔ اسی لیے شیخ الاسلام ان لوگوں کی توحید کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : یہ توحید کی دوسری قسم ہے اور جو کہ ’’ظاہری اسباب کا اسقاط‘‘ ہے۔ ان کے نزدیک رب تعالیٰ نے کسی چیز کو کسی سبب سے پیدا نہیں کیا بلکہ وہ
Flag Counter